میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے

 

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے

اسعد اقبال

یہ اس دنیا کا دستور ہے اور تاریخ کے صفحات اس پر شاہد ہیں کہ جو قوم اپنے اصولوں سے انحراف کرتی ہے، اپنے مقصد زندگی کو بالائے طاق رکھ دیتی ہے، رشتہ اخوت کو فراموش کر دیتی ہے، اپنے خالق کی بندگی میں کوتاہی کرتی ہے، اتحاد کا درس بھول کر انتشار کا شکار ہو جاتی ہے، اپنے تابناک ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے روشن مستقبل کی فکر نہیں کرتی ہے، اپنے تہذیب و تمدن کو بھول جاتی ہے، تعلیم سے منہ موڑ لیتی ہے، جذبہٴسرفروشی و جانبازی کو فراموش کردیتی ہے، سیادت و قیادت کو چھوڑ دیتی ہے اور تعیش پسندی اور تن پسندی کی عادی ہو جاتی ہے تو وہ قوم تنزلی اور زبوں حالی کا شکار ہو جاتی ہے، ہر ہر قدم پر اسے ذلت و نکبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے وجود کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، تاریخ سے اس کے سنہرے باب کو مٹایا جاتا ہے، ہر جگہ اس کی بربادی کے قصے سنائے جاتے ہیں۔

آج مسلمانوں کی اجتماعی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو مسلم قوم ہر جگہ بدحالی کا شکار ہے، ظلم و ستم کا تختہ مشق بنی ہوئی ہے، پورا کرہ ارض مسلمانوں کی آہ و فغاں اور چیخ و پکار سے گونج رہا ہے۔روئے زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جہاں مسلمان چین و سکون سے آباد ہو۔ ایک عجیب صورت حال ہے جسے لفظوں میں پرویا نہیں جاسکتا ہے، ایک لمبی داستان ہے جس میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا جارہاہے۔ جو محافظ ہے وہی قاتل ہے یا جو قاتل ہے وہی محافظ ہے۔ پوری باطل طاقتیں متحد ہو کر مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے میں لگی ہوئی ہے، مسلمانوں کی اس حالت پر باطل رقص کناں ہے ۔ مسلمانوں کی ایک ایک چیز اغیار کے نشانے پر ہے اور اب تو ان کے دین و ایمان پر بھی یلغاریں ہورہی ہیں، مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اذان پر پابندی لگائی جارہی ہے، نماز سے روکا جارہا ہے۔ مذہب اسلام، پیغمبر اسلام اور اسلامی تعلیمات پر مسلسل ہرزہ سرائی کی جارہی ہے، معزز شخصیات اور داعیان اسلام کو پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ کمزور اور بے حیثیت مسلمان اور مذہب اسلام کو بنادیا گیا ہے۔ یہ اس قوم کے حالات ہیں جس نے کئی صدیوں تک اس کرہ ارض پر حکمرانی کی ہے، جس کے رعب و دبدبے سے  باطل طاقتیں کانپتی تھیں، جس کے تابناک ماضی سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں ۔ یہ اس قوم کے حالات ہیں جس کے پاس ایسی کتاب ہے جو فتح و کامرانی کی ضامن ہے، ایک ایسا مذہب ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔

جب ہم ان اسباب و عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جن کی وجہ سے مسلم امہ آج ان ناگفتہ بہ حالات سے دو چار ہے تو ہمیں وہی اسباب نظر آتے ہیں جن میں مبتلا ہوکر قوم تنزلی کا شکار ہو نے لگتی ہے اور اس کی بلندی کا ستارہ غروب ہونے لگتا ہے۔ مسلمانوں نے اپنی شناخت کو ختم کردیا ہے، خالق سے اپنے رشتے کو کمزور کر لیا ہے اپنے کلچر، نظریہ اور اپنی تہذیب کو چھوڑ کر غیروں کی تہذیب کو اپنا لیا ہے۔ اور اسی میں اپنی فلاح و بہبود، ترقی اور کامیابی تلاش کر رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے عادات و اطوار، معاملات، اخلاقیات اور اپنی شخصیت سے اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں، خالق سے اپنے رشتہء عبدیت کو مضبوط کریں۔ اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کریں کہ معاشرہ اور سماج کے لئے مسلمان سے زیادہ مفید اور نافع کوئی نہیں ہوسکتا ہے اور ہم سے زیادہ بااخلاق کوئی اور نہیں ہوسکتا ہے۔زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں مسلمانوں کی کارکردگی بحیثیت قوم قابل تقلید اور قابل عمل ہو۔

تعلیم سے دوری

 عروج و زوال، نشیب و فراز اور ترقی و تنزلی میں تعلیم کا بہت بڑا کردار ہے۔ مسلمان جب تک زیور تعلیم سے آراستہ رہے دنیا پر ان کی حکمرانی رہی، ان کا رعب و دبدبہ رہا۔ لیکن جب سے تعلیم سے دوری اختیار کی وہ تنزلی کا شکار ہوتے گیے اور سیادت و قیادت سے محروم ہوتے گئے۔ تعلیم کے ہی ذریعہ مسلمان اپنے پیچ و خم کو سلجھا سکتا ہے، تعلیم کے ہی ذریعہ مسلمان اپنی نیا کو منجھدار سے نکال کر کنارے تک لا سکتا ہے۔ لیکن قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی کوئی حصہ داری نہیں ہے، مسلمانوں کے پاس تعلیم کا خاطر خواہ نظم نہیں ہے۔ اور اب بھی اس پہلو پر کوئی خاص توجہ نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے  اپنے افکار و تخیلات اور اشعار کے ذریعہ مسلسل مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا۔ تعلیم کے تئیں مسلمانوں کی بے رغبتی اور بے توجہی کے تعلق سے اپنے درد کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے:جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا

جذبہ سرفروشی و جانبازی کا فقدان

 تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ کسی بھی قوم کے عروج و ترقی کا دور وہ ہوتا ہے جب اس کے عزائم بلند ہوتے ہیں، وہ ہر میدان میں جرات و بہادری اور ہمت و شجاعت کا ثبوت دیتی ہے، محنت و جفاکشی اور جہد مسلسل ان کا امتیاز ہوتی ہے، وہ مشکل حالات کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے، وہ متحد ہوتی ہے اور ہر چیلنج کا مقابلہ متحدہ طور پر کرتی ہے ۔ لیکن جب وہ عیش و عشرت میں مبتلا ہو جاتی ہے، رقص و سرود سے دل بہلانے لگتی ہے، عالیشان عمارتوں اور محلات میں مگن ہو جاتی ہے، اور انتشار و خلفشار کا شکار ہو جاتی ہے؛ تو قوم کے زوال و انحطاط کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہ سرفروشی اور جانبازی کا ہی جذبہ تھا جس کی بدولت صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو سجدوں سے آباد کیا تھا، طارق بن زیاد نے اندلس کی سرزمین پر کلمۃ اللہ کو بلند کیا تھا، محمد بن قاسم نے قوم کی بیٹی کی صدا پر لبیک کہا تھا اور محمد فاتح نے ناقابل تسخیر قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا۔ لیکن اب صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے، مسلمانوں کے درد کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کے خلاف ہورہے ظلم و تشدد پر لگام کسنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کی دادرسی کو کوئی تیار نہیں ہے۔ عالم اسلام کے حکمراں عیش و طرب کی محافل سجائے بیٹھے ہیں، دین اسلام کے متوالوں پر مختلف الزامات و اتہامات کے ذریعہ بندش عائد کی جارہی ہے، جبکہ  ناچ گانے اور  شراب و کباب کے لئے اذن عام ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے :شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر

 

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے