مولانا وصی احمد قاسمی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

عزم و حوصلہ، استقامت و ثابت قدمی، پائیداری اور جانفشانی وہ عناصر ہیں جو انسان کو بام عروج تک پہنچا دیتے ہیں۔ محنت اور لگن کے ساتھ منزل کا حصول ممکن ہے اس کے بغیر سپنے بنے جاسکتے ہیں لیکن ان کو حقیقت کے لبادہ میں لپیٹا نہیں جاسکتا ہے۔ بعض شخصیات ایسی ہی ہوتی ہیں جن کے بلند و بالا ارادے ایسے کار خیر کا باعث بنتے ہیں جو بعد والوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔ مولانا وصی احمد قاسمی ایک ایسے ہی عزم مصمم اور ارادہ کی پختگی کے نادر شاہکار تھے جنہوں نے متھلانچل کے علاقے میں تعلیم نسواں کیلئے بے مثال خدمت انجام دی ہے۔ زیر نظر مضمون میں مولانا وصی احمد قاسمی کی حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو کو بیان کیا گیا ہے۔

ولادت با سعادت: آپ کی ولادت 1945 میں ہوئی۔ آپ ململ بستی کے متمول گھرانے کے رکن تھے۔ آپ کے آباء واجداد کا شمار اچھے زمینداروں میں ہوا کرتا تھا۔ آپ کے والد محترم حافظ محمد سلیم بن شمشیر علی نے زندگی کا بیشتر حصہ خدمت قرآن میں گزارا۔ صوبہ بہار کے مختلف اضلاع میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔ یہ قرآن مجید کی خدمت کا ثمرہ تھا کہ اللہ نے آپ کی جھولی میں مولانا وصی احمد قاسمی کی شکل میں گوہر نایاب عطا فرمایا تھا۔

ابتدائی تعلیم: ململ بستی میں ایک قدیم مکتب چشمہ فیض کے نام سے جاری تھا۔ علاقے کے بچوں کیلئے عموماً پہلی درسگاہ یہی مکتب ہوا کرتا تھا۔ حسب عادت جب آپ پانچ برس کے ہوئے تو آپ کی رسم بسم اللہ مولانا عقیل احمد عاقل رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ ادا کی گئی۔ چند دنوں تک آپ نے اس مکتب میں تعلیم حاصل کی اور پھر قرآن مجید کے چند سپارے حافظ محمد اسماعیل کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے یاد کیا۔ بعض اسباب کی بنا پر آپ مونگیر تشریف لے گئے اور یہاں قاری سعد اللہ بخاری سے بقیہ حصہ کی تکمیل فرمائی۔ 
مونگیر میں قیام کے دوران آپ نے جامعہ رحمانیہ مونگیر کی جلالت علمی اور وہاں موجود اصحاب علم وفضل کو دیکھا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ علوم نبویہ کا یہ متلاشی اپنی سیرابی کیلئے ایسے سرچشموں کا کنارہ نہیں ڈھونڈھتا۔ آپ نے 1957 میں جامعہ رحمانیہ مونگیر میں داخلہ لیا اور یہاں آپ کی خدا داد صلاحیتوں کا ظہور ہوا جو آپ میں ذات باری تعالٰی نے ودیعت رکھا تھا۔ درسیات کے علاوہ خارجی مطالعہ، عربی تکلم، انشاء پردازی اور فن خطابت میں آپ نے ید طولی حاصل کرلیا تھا۔ طلباء میں آپ کو نمایاں مقام حاصل تھا۔ 1960 تک آپ مونگیر میں رہے اور پھر کچھ دنوں کیلئے دربھنگہ امدادیہ میں داخل ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دربھنگہ امدادیہ کو بہار کا دارالعلوم تصور کیا جاتا تھا۔ یہاں اساتذہ اور طلباء کا علمی معیار اس قدر بلند ہوا کرتا تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے داخلہ امتحان میں یہاں کے طلباء ہمیشہ ممتاز اور نمایاں رہا کرتے تھے۔ 
1961 میں آپ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔ عربی چہارم میں داخل ہوئے اور اخیر تک دارالعلوم کی منور و پر رونق چہار دیواری میں علم کی تشنگی بجھاتے رہے۔ طلباء دربھنگہ کی انجمن بزمِ تہذیب الافکار کے فعال رکن کی حیثیت سے شامل رہے۔ آپ نے فن خطابت میں ایسے انداز و اسلوب کو اپنایا کہ دارالعلوم کے طلباء میں فن خطابت میں آپ کو بے مثال شمار کیا جانے لگا تھا۔ حتی کہ آپ کو سیاسی تقاریر کیلئے بھی اسٹیج پر بلایا جانے لگا۔ جس کے نتیجہ میں آپ جمعیہ علماء ہند سے بہت قریب ہوگئے۔ آپ کی تقریری صلاحیت نے آپ کو فدائے ملت حضرت مولانا سید محمد اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے متعارف کرایا اور یہ تعلق بعد کے زمانے میں ہمیشہ باقی رہا۔

تدریسی خدمات کا آغاز: 1968 میں آپ مکتب چشمہ فیض ململ سے وابستہ ہوگئے۔ اگرچہ یہ مکتب کافی قدیم تھا اور علاقے کے طلباء اور بچوں کو بنیادی دینی تعلیمات سے آراستہ کرنے میں نہایت موثر کردار ادا کررہا تھا، لیکن یہ مکتب تشنگانِ علوم کی سیرابی کیلئے کافی نہیں تھا۔ مولانا وصی احمد قاسمی صاحب اس مکتب میں بحیثیت استاد مقرر ہوئے، آپ کا ارادہ کچھ اور تھا، آپ اس مکتب کو باضابطہ مدرسہ کی شکل دینا چاہتے تھے لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چنانچہ 1972 میں آپ مکتب سے علیحدہ ہوگئے۔ 
مولانا وصی احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ صاحب بصیرت شخصیت کے حامل تھے، انہوں نے مکتب سے علیحدگی کے بعد تجارت میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ ایمانداری، دیانتداری، وعدہ کی پاسداری اور معاملات کی صفائی نے مختصر مدت میں آپ کو بہترین تاجر کی فہرست میں شامل کردیا۔ آپ نے تجارت کو مزید فروغ دینے کا ارادہ کیا لیکن 1974 میں مکتب چشمہ فیض ململ کی حالت دگر گوں ہوگئی تھی۔ جس مکتب نے ہزاروں بچوں اور طلباء کی سیرابی کا کام کیا تھا آج اسے ایسے متحرک اور فعال شخصیت کی ضرورت آن پڑی تھی جو اس کی سینچائی کرے۔ اس کی آبیاری کرے اور اس ٹمٹماتے چراغ کو بھجنے سے بچا سکے۔ گاؤں والوں کے متفقہ فیصلہ سے آپ کو مکتب کا ایسے وقت میں ذمہ دار بنایا گیا جب مکتب اپنے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی سے بھی عاجز تھا۔ 

مکتب چشمہ فیض ململ کی نشاہ ثانیہ: آپ نے علاقہ کی ضرورت اور مکتب کی زبوں حالی کے پیشِ نظر دم توڑتے ہوئے مکتب کو گود لے لیا۔ عمارت کے نام پر مکتب کے پاس ایک چھپر پوش خستہ حال عمارت تھی۔ آپ نے اپنے رفقاء کار کے ساتھ مل کر مکتب کو مدرسہ میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا اور 1978 کے قریب میں اسی چھپر کے نیچے فارسی کی تعلیم کا آغاز کردیا۔ 
اخلاص و للہیت، پیہم سعی جمیلہ اور رحمت خداوندی کے سہارے اس کار خیر کو آگے بڑھایا گیا۔ 1979 میں مشہور مفسر قرآن حضرت مولانا قریش صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں عربی درجات کا آغاز کردیا گیا۔ مولانا کی قلبی خواہش تھی کہ مدرسہ کا الحاق ندوہ العلماء سے کیا جائے۔ اسی خواہش کے پیشِ نظر آپ نے ابتداء سے ہی عربی درجات میں ندوہ العلماء کے نصاب کو نافذ کیا تھا۔ 1982-83 میں طلباء کی پہلی جماعت ندوہ العلماء کیلئے روانہ ہوئی۔ پورے علاقہ میں یہ پہلا تجربہ تھا جب طلباء جماعت کی شکل میں ندوہ العلماء لکھنؤ حصول علم کیلئے تشریف لے گئے تھے۔ اس سے قبل فردا فردا جانے والوں کی داستان تو موجود ہے لیکن بشکل جماعت یہ پہلا قافلہ تھا۔ پورے علاقہ میں خوشی کا ماحول تھا۔ ہر کس و ناکس ان طلباء کے بہتر مستقبل کا خواہاں تھا۔ اس قدم کے بعد مدرسہ چشمہ فیض ململ کو باضابطہ عمارت کی ضرورت پیش آئی، طلباء کا رجوع مدرسہ کی جانب بہت تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ 
1992 تک یہ سلسلہ برقرار رہا، لیکن اس وقت تک باضابطہ ندوہ العلماء کی جانب سے الحاق کی سند نہیں دی گئی تھی۔ پھر وہ صبح بھی آگئ جس کا انتظار ایک دہائی قبل سے کیا جارہا تھا۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے خاص معتمد مولانا نذر الحفیظ ندوی ازہری صاحب ندوہ العلماء کی جانب سے بغرض معائنہ مدرسہ چشمہ فیض ململ تشریف لائے۔ آپ نے اپنی صوابدید کے اعتبار سے طلباء کا جائزہ لیا، آپ کے اس معائنہ کے بعد باضابطہ الحاق کردیا گیا۔ اب یہ مدرسہ باضابطہ شاخ ندوہ العلماء کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

تعلیم نسواں کا آغاز: متھلانچل کے علاقے میں مسلم بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے کئی ایک ادارے قائم تھے۔ بعض وہ ادارے بھی تھے جو گزشتہ ایک صدی سے علمی خدمات انجام دے رہے تھے لیکن قوم کی بچیوں کیلئے کوئی ایسا ادارہ یا ایسی تعلیم گاہ نہیں تھی جو علم کے ساتھ تربیت کے فرائض کو بخوبی انجام دے سکے۔ 1992 میں آپ نے مدرسہ فاطمہ الزھراء کی بنیاد ڈالی۔ قوم کی بچیوں کیلئے اقامتی ادارہ قائم کیا تاکہ یہ فیض گاؤں تک محدود نہ رہے بلکہ دور دراز کے افراد اپنی بچیوں کو بہتر تعلیم و تربیت کیلئے یہاں بھیج سکے۔ 
اس ادارہ کی اہمیت کا اندازہ علاقہ میں مشہور زبان زد محاورہ سے کیا جاسکتا ہے (ململ کی مرغیاں بھی حافظ ہوتی ہیں) یہ کثرتِ حفاظ کو بتانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ کا لگایا گیا یہ پودہ اب تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کی چھاؤں میں ہزاروں بچیاں اپنا مستقبل سنوار رہی ہے۔

ایک خوشگوار ملاقات: تقریباً تین سال قبل، اتفاق سے مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب نے ہمارے علاقہ میں آنے کی خواہش ظاہر کی۔ فون پر بات چیت کا سلسلہ جاری تھا لیکن مصروفیت کے باعث کوئی تاریخ طے نہیں ہوپائی تھی۔ ہمارے قیام وطن کی مدت مختصر تھی، اسی درمیان مدھوبنی شہر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں سے اچانک ململ جانے کا ارادہ بن گیا۔ کچھ دور جانے کے بعد مولانا غفران ساجد صاحب کو بذریعہ فون اپنے آمد کی اطلاع دی، سوئے قسمت مولانا اس وقت ململ کے اطراف میں ہی نہیں تھے۔ دل میں خیال گزرا کہ واپس لوٹ جائیں، لیکن پھر اس ادارہ کو دیکھنے کی خواہش جس کے فیوض وبرکات کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے چلے آرہے تھے، دیکھنے کا جذبہ ابھر آیا۔ بغیر سوچے سمجھے، راستہ سے ناواقف ہونے کے باوجود ململ گاؤں تک پہنچے۔ پھر گاؤں سے چشمہ فیض ململ کی چہار دیواری میں قدم رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ چونکہ عید الاضحیٰ کی تعطیل کے ایام تھے، اس لئے طلباء اپنے گھروں کو جاچکے تھے۔ مدرسہ کے احاطہ میں چند افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ علیک سلیک کے بعد، ہم نے مولانا فاتح اقبال ندوی صاحب کے متعلق استفسار کیا۔ اس وقت تک مولانا فاتح اقبال ندوی صاحب سے براہ راست ملاقات نہیں تھی، البتہ کچھ حدتک غائبانہ تعارف ضرور تھا۔ اتفاق سے ہم نے مولانا فاتح صاحب سے ہی دریافت کیا کہ مولانا فاتح اقبال صاحب سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا سے تعارف ہوا، کچھ دیر مدرسہ کے احاطہ میں بیٹھے رہے پھر آپ کے ہمراہ آپ کے دولت کدہ پر تشریف لے گئے۔ یہاں پہلی مرتبہ حضرت مولانا وصی احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کی خرد نوازی نے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ یہ پہلی ملاقات ہے۔ ایک عظیم شخصیت جس نے اپنے بل بوتے پورے علاقہ کو ایک نہیں بلکہ دو بے مثال ادارے دیئے تھے۔ جن کے خلوص کی برکتوں سے قوم مسلم کو بے انتہا تعلیمی فائدہ پہنچا تھا۔ ایسی ملنسار، متواضع اور شفیق ہستیاں روئے زمین پر نادر و نایاب قیمتی گوہر ہیں جو اپنے سے زیادہ دوسروں کیلئے نافع بن کر پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے تئیں ان کے فکر کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے اس مختصر ملاقات میں عید الاضحی کے موقع پر مدارس کو حاصل ہونے والے رقوم کے متعلق فرمایا کہ اب چمڑے کی گرتی ہوئی قیمت کی وجہ سے کن کن مدارس کو کتنا نقصان ہوا ہے۔ آپ اس نقصان کی وجہ سے بہت زیادہ متفکر نظر آرہے تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ صرف اپنے مدرسہ کے ذمہ دار نہیں بلکہ علاقہ میں موجود تمام مدارس کے ذمہ دار ہیں جن کی وجہ سے آپ اس مالی خسارے سے پریشان ہیں۔ اس ملاقات نے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو ہمیشہ ایک خوشگوار یاد کی شکل میں محفوظ رہے گا۔

سفر آخرت: آپ نے پوری زندگی علم و عمل کے چراغ کو روشن کئے رکھا۔ ہر ممکن طریقے سے قوم مسلم کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم کیلئے بہتر سہولت فراہم کی ہے۔ وفات سے قبل آپ پر ٹائیفائڈ کا اثر ظاہر ہوا۔ علاج کی تدبیریں اختیار کی گئی لیکن اب تو راہ حق کا یہ مسافر اپنے رب کی بارگاہ میں حاضری دینے کیلئے بے چین تھا۔ بالآخر 21 جولائی بروز منگل 2020 کو آپ اپنے لاکھوں عقیدتمندوں اور شاگردوں کی بڑی تعداد کو روتا بلکتا دار فانی سے کوچ کرگئے۔ 
آپ کے ذریعہ قائم کردہ ادارہ امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

 

 

 

Related Posts

0 thoughts on “مولانا وصی احمد قاسمی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

  1. ماشاء اللہ۔ اس جامع تحریر میں آپ نے حضرت مولانا قاسمی مرحوم کے ساتھ ساتھ ان کے قائم کردہ دونوں اداروں کا تعارف بھی اچھی طرح کرادیا۔ جزاک اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے