مولانا نور عالم خلیل امینی: اس کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہو گیا۔

 مولانا نور عالم خلیل امینی: اس کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہو گیا۔

محمد اسعد اقبال

استاذ حدیث شالوک پاڑہ مدرسہ اشرف العلوم ہاؤڑہ کولکاتہ 

مسافرانِ آخرت برق رفتاری کے ساتھ اپنی منزل کی طرف کوچ کررہے ہیں، ایسی ہوا چلی ہوئی ہے جو ہر ایک  کو اڑائے لے جارہی ہے۔ پوری دنیا پر ایسی مہلک وبا اور ایسا ہولناک وائرس سایہ فگن ہے جس نے سب کو خوف و دہشت میں مبتلا کر رکھا ہے، ہر آن اور ہر لمحہ اندوہناک خبریں آرہی ہیں۔ اس کاروان آخرت میں علم و فضل کے درخشاں ستارے، دنیائے علم وادب کے نابغہ بے مثال، مصلح و داعی، قوم وملت کے بے لوث خادم اور زہدو ورع کے وہ نایاب موتی اور لعل و گوہر بھی ہیں جن کا وجود قابلِ فخر تھا، جن کی زندگی قابل تقلید ہے، اور جن کی تمثیل اس قحط الرجال کے دور میں محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بے شک موت کا آنا یقینی ہے، یہاں سے ہر ایک کو جانا ہے۔ دنیا کا وجود ہی اس کے عدم کی دلیل ہے، یہاں کی ہر شئی کو فنا ہے۔ لیکن بعض جانے والے اور رخصت ہونے والے بعد والوں کی آنکھوں میں آنسوں، دل میں کرب و بلا اور زندگی میں مایوسی کی دبیز چادر تان جاتے ہیں۔ جن کی رخصتی ایک شخص یا فرد کی جدائی نہیں بلکہ علم و فضل کی حسین وادی کے مسافر اور تحقیق و تخریج کے غواص کی رحلت ہوتی جن پر ایک عالم ماتم کناں ہوتا ہے۔ 

ہستی کے لیے ضرور اک دن ہے فنا 
آنا تیرا ______ دلیل جانے کی ہے

Maulana Noor Alam Khalil Amini, Maulana Noor Alam Khalil Amini ki kitaab
Maulana Noor Alam Khalil Amini


اس کارواں میں ترجمانِ دیوبند اور علمائے دیوبند کے پاسبان و امین، علم وادب کے نیرِ تاباں حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ بھی شامل ہوگئے۔ آپ نے تنگدستی کی حالت میں اپنی طالب علمانہ زندگی کی شروعات کی اور اپنی جہد مسلسل اور سعی پیہم کی بدولت درس و تدریس اور زبان و ادب کے بادشاہ بن گیے۔ اردو اور عربی زبان وادب کے ایسے شہنشاہ بنے جن کی تحریریں سند کا درجہ رکھتی ہیں، اور جن کی رائے زبان و ادب کا معیار سمجھی جاتی ہے۔ سچ ہے زندگی کی حقیقت جہد مسلسل ہے، جد وجہد اور لگاتار محنت کے بعد ہی انسان کی شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے، اور وہ ایسے مقام پر فائز ہوجاتا ہے جسے لوگ بطورِ تمثیل کے پیش کرتے ہیں۔ سہولت پسند، آرام طلب اور لفظ محنت سے ناآشنا لوگ اپنی کوئی شناخت نہیں بنا سکتے۔ مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب "وہ کوہ کن کی بات” میں فرہاد کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فرہاد کو دیکھو دنیائے عاشقی میں اس کا نام اس وقت روشن ہوا، جب اس نے برسوں کی لگاتار محنت سے، پہاڑ جیسی چیز کو کاٹ کر رکھ دیا۔ 

زندگانی کی حقیقت، کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی

مولانا نور عالم خلیل امینی کی شخصیت گونا گوں خصوصیات اور کمالات کا جامع تھی، آپ خوبیوں کے بحر بے کنار تھے، گہرائی و گیرائی کا جذبہ موجزن تھا، آپ کی باتیں اور تحریریں محقق و مدلل ہوا کرتی تھیں۔ آپ کی حیات وخدمات پر آپ کے خوشہ چیں، شاگرد حضرات اور محبین و معتقدین خامہ فرسائی کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ زیادہ تر حضرات نے آپ کی عربی زبان و ادب کی خدمات پر خامہ فرسائی کی ہے، اور عمدہ انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اور کررہے ہیں۔ بےشک آپ کی محنت و لگن اور جاں فشانی کی بدولت طلبہ کو عربی زبان وادب سے عشق ہو گیا ہے، اور کیوں نہ ہو؛ جب کہ یہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک ہے۔ "وہ کوہ کن کی بات” میں جہاں عربی سے محبت اور لگاؤ کا تذکرہ آیا ہے وہاں بہت خوبصورت عنوان لگایا گیا ہے۔ "خاک عجم میں زبان عربی کی شادابی” واقعی بہت خوبصورت عنوان ہے اور آپ بھی اپنے استاد مکرم کے طرز پر عربی زبان کی خاک عجم میں زبان عربی کی شادابی کا کام کررہےتھے۔

آپ کی مرتب کردہ کتاب (فلسطین صلاح الدین کے انتظار میں) ادبی چاشنی سمیت ظلم و جور اور جرات و بہادری کی ایسی تاریخ سے مزین ہے جس سے عالم اسلام سمیت پوری انسانیت نے چشم پوشی کی ہے، اور آج تک اغماض سے کام لیا جارہا ہے۔ مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب نے فلسطینی مظلومین کی شہادت، قید و بند کی اذیتیں اور ان کی بے مثال قربانیوں سے، عشرت کدوں اور متاع تعیش میں مگن افراد کو روشناس کرایا ہے۔


راقم الحروف کو باضابطہ مولانا سے استفادہ کا موقع نہیں ملا ہے؛ لیکن آپ کے درس میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، نیز بزم سجاد ( طلبہ بہار، اڈیشہ، جھارکھنڈ و نیپال) سے منسلک ہونے کی وجہ سے مولانا کے دولت کدہ پر حاضری کی توفیق ہوئی ہے، مولانا چونکہ بزم سجاد کے سرپرست تھے اس لیے بزم کی سرگرمیاں بشکل رپورٹ پیش کرنی ہوتی تھی۔ 

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کی کتابوں کو پڑھنے کا موقع ملا۔ اور زمانہ طالب علمی میں دارالعلوم میں رہتے ہوئے بھر پور طریقے سے استفادہ کی کوشش کی ہے۔ آپ کی تحریر کو پڑھنے سے لکھنے کے ساتھ ساتھ بولنے میں بھی سنجیدگی و متانت اور ادبی اسلوب کی چاشنی محسوس ہونے لگتی ہے اور اہل ذوق اسی کو مشعل راہ بنا کر زبان و ادب کی وادی میں سیر کرتے ہیں اور اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ 

مولانا نور عالم خلیل امینی عالم اسلام پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، آپ نے اس موضوع پر مختلف مضامین اور مقالات لکھے ہیں، حقائق اور دلائل و شواہد کی روشنی میں تفصیلی بحث کی ہے۔ 11/ ستمبر 2001 کے بعد عالم اسلام پر عسکری و فکری یلغار، مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی خوں چکاں داستان، نیز صلیبیوں اور صیہونیوں کی دسیسہ کاریوں کو تفصیل کے ساتھ واضح کیا ہے اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ امریکا اور مغرب کی موجودہ جنگ درحقیقت صلیبی و صہیونی جنگ ہے۔ آپ کی کتابی کاوش (موجودہ صلیبی صہیونی جنگ) اس موضوع پر قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ 

20/ رمضان 1442 ھ بمطابق 3/ مئی 2021 صبح سوا تین بجے علم وادب کا یہ آفتاب، درس و تدریس کا درخشاں ستارہ ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا۔ آپ کی علمی کاوشیں ہم تشنگان کی سیرابی کیلئے موجود ہے لیکن اب وہ سوتا خشک ہو چکا ہے جس سے بے شمار افراد سیراب ہوا کرتے تھے۔

کوئی نالاں کوئی گریاں کوئی بسمل ہو گیا 
اس کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہو گیا

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے