مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

 

مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

فتنہ و فساد اور ظلمت و تاریکی کے اس دور میں جب کہ ہر چہار جانب سے امت مسلمہ کوسخت مسائل در پیش ہے۔ بے دینی اور اخلاقی گراوٹ کا عفریت مسلم قوم کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہے۔فتنہ ارتداد کی تیز و تند آندھی نے مسلم گھروں کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے حالات میں اُن نفوس قدسیہ کا یکے بعد دیگرے رخصت ہونا جن کے دم سے مسلم قوم میں کچھ رمق باقی ہے، پوری ملت کے لئے عظیم خسارہ ہے، یہ ایسا نقصان اور ایسا خلا ہے جس کی بھرپائی بظاہر مشکل نظر آتی ہے۔ جن کے شبانہ روز کی محنت شاقہ اور قوم مسلم کے لئے ہمہ وقت کی فکر مندی کے طفیل عوام الناس میں دینی اور اسلامی روح بیدار ہوتی رہی ہے، اور جن کی دعائے نیم شبی نے بے راہ روی کے دلدل میں پھنسے بے شمار افراد کو صراط مستقیم کا راہی بنایا تھا، ایسے صاحب دل اور مفکرین قوم کی جدائی نے امت مسلمہ پر ناامیدی کی چادر کو دراز کردیا ہے۔ علم و عمل، فہم و فراست کے حامل ان چیدہ اور چنیدہ اشخاص میں ایک اہم نام دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم استاذ حدیث حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کا ہے، جو طویل علالت کے بعد ہمارے درمیان سے رب کریم کی بارگاہ میں چلے گئے۔ مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب اپنی گوناگوں خصوصیات اور تواضع و انکساری کی بنا پر ایک الگ اور بلند پایہ مقام و مرتبہ کے حامل تھے۔

maulana abdul khalique sanbhali aur unki khidmat
مولانا عبد الخالق سنبھلی


تاریخ پیدائش

مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کی پیدا ئش 4 جنوری 1950 کوجناب نصیر احمدصاحب مرحوم کے گھر ہوئی۔آپ کی پیدائش ایک متوسط دین دار گھرانے میں ہوئی، آپ کے والد محترم دینی مزاج کے حامل اور سنت نبوی کے پیروکار تھے۔جناب نصیر احمد صاحب بلند پایہ شاعر تھے، ایام جوانی میں مشاعروں اور شعری نشستوں میں خوب شرکت کیا کرتے تھے، لیکن آپ کے کلام کی خوبی یہ تھی کہ وہ لغویات سے پاک ہوا کرتے تھے۔ والد محترم کی شعر و شاعری کا ذوق مولانا میں بھی موجود تھا، دوران درس سر مستی کے عالم میں موقع کی مناسبت سے اشعار کہا کرتے تھے۔مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب بچپن سے ہی نہایت سلیم الطبع، خوش اخلاق و خوش گفتار، اور سنجیدگی کے پیکر واقع ہوئے تھے۔ شرافت و نجابت کے آثار ایام طفولیت سے ہی آپ کی پیشانی پر عیاں تھے۔ آپ کی تربیت اس انداز سے ہوئی کہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی آداب و اخلاق آپ کی زندگی کا لازمی جز بن گئے۔

تعلیم کا آغاز

مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب نے تعلیم کا آغاز اپنے علاقہ کے مکتب سے شروع کیا۔ مکتب کی تعلیم، اہل خانہ کی توجہات، اساتذہ کرام کی شفقت اور سب سے بڑھ کر آپ کی اپنی صالحیت و صلاحیت نے آپ کے شوق علم کو مہمیز لگایا، اور یہ سلسلہ دراز تر ہوتا چلا گیا۔ مکتب کی تعلیم سے فراغت کے بعد حفظ قرآن کے لئے علاقہ کے مشہور و معروف حافظ جناب فرید الدین صاحب مرحوم کی درس گاہ کا انتخاب کیا۔ حافظ صاحب کی توجہ اور والدین کی دعاوں کے طفیل بہت کم عرصہ میں آپ نے وہ سعادت حاصل کی جو دنیا و آخرت دونوں کے لئے باعث عز و شرف ہے۔ جس کی فضیلت میں آیات و احادیث کے ذخائر موجود ہیں۔

مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کی تکمیل حفظ کے بعد ابتدائی تعلیم متوسطات تک علاقہ کی مشہور و معروف ہستی مفتی محمد آفتابؒ صاحب کے پاس ہوئی۔مفتی محمد آفتاب صاحب لائق و فائق استاذ اور بہترین مربی کی حیثیت سے متعارف تھے۔ چنانچہ جب تک مفتی صاحب اس مدرسہ سے وابستہ رہے مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب ان کی زیر تربیت مدرسہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر جب مفتی محمد آفتاب صاحب نے مدرسہ وحید المدارس سے استعفا دیا اور مدرسہ شمس العلوم سے وابستہ ہوئے تو مولانا عبدا لخالق سنبھلی صاحب بھی ان کی معیت میں مدرسہ شمس العلوم روانہ ہوگئے۔ مدرسہ شمس العلوم سنبھل میں رہ کر متوسطات تک کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کا ذوق و شوق اور علمی فہم و فراست قابل تعریف اور لائق ستائش تھا۔ آپ کے اساتذہ آپ کی صالحیت و صلاحیت کے گرویدہ تھے۔

دارالعلوم دیوبند میں داخلہ

مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب نے متوسطات کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا۔ دارالعلوم دیوبند جس نے ہر دور اور ہر زمانے میں اپنی آغوش میں جبال العلوم اشخاص کو پالا اور پروان چڑھایا ہے۔ جس کی چھاوں تلے ہزاروں تشنگان علوم نبویہ کو سیرابی حاصل ہوئی ہے اور جس کے رواں دواں فیوض و برکات سے عالَم اسلام کا گوشہ گوشہ مہک رہا ہے۔ ایسے بافیض اور بابرکت ادارہ میں مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کو اپنی علمی سیرابی کا موقع میسر ہوا۔ دارالعلوم دیوبند کی علمی فضا نے مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کی علمی استعداد کو مزید پروان چڑھایا۔ قال اللہ و قال الرسول کے اس پُر کیف ماحول میں آپ کی شخصیت کو مزید نکھرنے اور پنپنے کا موقع ملا۔ آپ نے علم کے اس سمندرسے یاقوت و جواہر سے اپنے دامن  بھرنے میں کوتاہی سے کام نہیں لیا، بلکہ حتی الوسع اس تگ و دو میں رہے کہ زیادہ سے زیادہ علمی موتیوں سے اپنے دامن کو سجایا جائے۔ دارالعلوم دیوبند میں رہتے ہوئے آپ نے ان اصحاب فضل و کمال سے کسب فیض کیا تھا جن کے علوم و معارف کی دنیا معترف تھی۔ جو دن کی روشنی میں قال اللہ و قال الرسول کی صدا بلند کرتے تھے اور رات کی تنہائی میں رب کریم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر عالم اسلام کے لئے آہ و زاری میں وقت بِتایا کرتے تھے۔ جو دن میں طلباء کرام کو اشاعت اسلام اور صیانت دین کے لئے تیار کرتے تھے اور رات کی تاریکی میں ان کی کامیابی و کامرانی کے لئے رب ذو الجلال کی بارگاہ میں التجا کیا کرتے تھے۔ مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب نے اپنے زمانہ طالب علمی کو ان طور طریقوں پر گزارا جن پر ہمارے اسلاف و اکابرین نے چل کر علوم و معارف کے باب میں کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے۔ 1968 میں آپ دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور 1972 میں دورہ حدیث شریف سے آپ کی فراغت ہوئی۔ ان ایام میں آپ نے حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی، مولانا فخر الدین اور مفتی محمود حسن گنگوہی ، خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی اور مولانا انظر شاہ کشمیری جیسے گوہر نایاب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ علوم و معارف کے اس حسین گلدستہ کی مہک اور چاشنی نے مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کو بھی مشکبار و معطر کردیا تھا۔ دورہ حدیث میں آپ نے معیاری نمبرات سے کامیابی حاصل کی، فراغت کے بعد آ پ نے تکمیل ادب میں ایک سال لگایا۔ آپ کا ادبی ذوق نہایت اعلی اور ظرافت پر مبنی تھا۔ آپ کے برجستہ جملے سننے والوں پر وجد طاری کردیا کرتے تھے۔

عملی زندگی کا آغاز

دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 1973 میں آپ نے عملی زندگی کا آغاز مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ سے کیا۔ تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہا۔ آپ نے پوری زندگی تعلیم و تعلم کے ذریعہ اشاعت اسلام کے لئے وقف کردیا تھا۔ مدرسہ خاد م الاسلام میں رہتے ہوئے آپ ایک کامیاب ، مشفق و مربی استاذ کی حیثیت سے طلبہ کرام کے درمیان مقبول رہے ۔ محنت و جفا کشی اور طلبہ کے تئیں حد درجہ محبت و لگاو کی وجہ سے آپ ہمہ دم ان کی بہتری اور ترقی کے لئے کوشاں رہا کرتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت کے لئے متفکر رہا کرتے اور ان میں علمی ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے مختلف اسباب و عوامل کے ذریعہ انہیں ابھارا کرتے تھے۔ 1979 کے وسط میں آپ خادم الاسلام جامع الہدی مرادآباد تشریف لائے۔ یہاں بھی آپ نے حسب سابق درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔

دارالعلوم دیوبند سے وابستگی

مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کا انداز درس، جفا کشی، طلبہ کے تئیں ہمدردی اور کتابوں کے افہام و تفہیم کے ملکہ کی باعث آپ کی شہرت ازہر ہند دارالعلوم دیوبند تک پہنچ چکی تھی۔ 1982کا سال  مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کے لئے سنگ میل ثابت ہوا، اور کشاں کشاں آپ علم و عمل کی اس درس گاہ میں پہنچ گئے جس کی سو سالہ تاریخ جرات و عزیمت، حق و صداقت، اشاعت اسلام، صیانت دین اور دعوت و تبلیغ کے باب میں روشن مینارہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ کی تقرری نے آپ کے اس جوہر کو دنیا کے سامنے پیش کیا جس سے اب تک لوگ ناواقف تھے۔ آپ کے انداز درس نے طلبہ کرام کو آپ کا گرویدہ بنا دیا۔ آپ کی سادگی ضرب المثل بن گئی، اور آپ کی نفاست طلبہ کرام کے لئے قابل تقلید۔ آپ کی ہر ادا قابل رشک اور قابل دید تھی۔انداز گفتگو اور طرز تکلم میں آپ نئے طرز و ادا کے موجد تھے۔ آپ کا انداز درس نہایت عمدہ، سہل اور قابل فہم ہوا کرتا تھا۔ طلبہ کرام کی عبارت خوانی پر حد درجہ توجہ دیا کرتے تھے۔ مسائل کی گتھیوں کو یوں حل کردیتے گویا کہ طلبہ کرام کو گھول کر پلا رہے ہیں۔ پیچیدہ اور مغلق مسائل کی تفہیم کے لئے روز مرہ کے عوامی مسائل کو مثال میں پیش کرکے طلبہ کرام کو سمجھایا کرتے تھے۔

بندہ کو آپ سے رد مودودیت پر محاضرہ سننے کا موقع ملا ہے۔ آپ کی بذلہ سنجی، ظرافت اور بر محل برجستہ اشعار اور جملے طلبہ کرام کی دلچسپی کو برقرار رکھنے میں بہت زیادہ معاون ہوتے تھے۔

آپ اردو زبان کے الفاظ کے ماخذ اپنے اختراعی انداز میں بیان کرنے میں ید طولی رکھتے تھے۔ بیشتر الفاظ کو آپ دو یا تین حصوں میں تقسیم کرکے اس کی اصل بیان کرتے جو طلبہ کے لئے بہترین سامان تفریح ہوا کرتا تھا۔ آپ مختصر لیکن شستہ جملوں کو ادا کرتے، الفاظ کی پیچیدگی میں الجھنے کے بجائے عام مستعمل الفاظ کو درست طریقے سے استعمال کرتے تھے۔

عربی زبان و ادب میں آپ اس شخصیت کے شاگرد اور پرتو تھے، جن کی زیر تربیت ہزاروں افراد نے اپنی زندگی سنواری ہے۔ خوش نصیب تھے وہ افراد جن کو مولانا وحید الزماں کیرانوی جیسا رجال ساز مربی اور استاذ نصیب ہوا تھا۔ مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب بھی انہی خوش نصیب خوشہ چینوں میں سے تھے جنہوں نے مولانا وحید الزماں کیرانوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب بر جستہ عربی زبان کے تکلم پر قادر تھے۔ بسا اوقات طلبہ کرام کی فرمائش پر مکمل درس عربی زبان میں دیا کرتے تھے۔

تصنیف و تالیف

مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب ایک بہترین استاذ، مربی اور راہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے قلم کار بھی تھے۔ آپ نے گرچہ تصنیف و تالیف کے میدان کو اپنے لئے منتخب نہیں فرمایا تھا، اس کے باوجود جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ تحقیق و تدقیق اور ریسرچ کے اعلی معیار کا نمونہ ہے۔

رد مودودیت پر آپ کا پانچ اجزاء پر مشتمل رسالہ قابل مطالعہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں تخصصات کے طلبہ کے درمیان آپ یہ محاضرہ پیش کرتے تھے۔ ان کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر دارالعلوم دیوبند نے اپنے مکتبہ سے اسے شائع کیا ہے۔ فتاوی عالمگیری جو کہ فقہ حنفی کی مستند اور مدلل کتاب ہے، اس کے ایک جز (کتاب الایمان) کا آپ نے افادہ عام کے لئے اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں شیخ عبد الحمید زندانی کی کتاب "کتاب التوحید” کا آپ نے اردو ترجمہ کیا ہے، جو تقریبا پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے۔

تواضع و انکساری

2008 میں نائب مہتمم منتخب کئے جانے کے باوجود اور اس سے قبل بھی طلبہ کرام کی رسائی آپ تک بآسانی ہوجایا کرتی تھی۔ آپ ہر ہر طالب علم سے اس قدر خوش اخلاقی اور خوش مزاجی کے ساتھ ملاقات کرتے اور گفتتگو فرماتے گویاکہ وہ آپ کا سب سے زیادہ عزیز ہو۔ طلبہ کرام کی ضروریات کا بھر پور خیال رکھا کرتے تھے۔ واردین کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے، آ پ کی ضیافت اور مہمان نوازی قابل تعریف تھی۔ پروگرام وغیرہ اور اصلاح معاشرہ کانفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لے جاتے تو سادگی اور تواضع کا یہ عالم ہوتا کہ دیکھنے اور سننے والوں کو یہ بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ یہ نحیف و لاغر لیکن بارعب شخص دارالعلوم دیوبند کی نیابت کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ آپ شیریں زباں اور شیریں بیاں مقرر کی حقیقی تصویر تھے، آپ کا وعظ ناصحانہ اور گفتگو بے موقع باتوں سے خالی ہوا کرتی تھی۔ زندگی کے نشیب و فراز اور حالات کی گردش آپ کے طرز زندگی پر اثر انداز نہیں ہو سکے تھے۔ سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے اور اس برق رفتاری سے چلتے کہ جوان بھی ان کے شانہ بشانہ چلنے میں دقت اور پریشانی محسوس کرتے تھے۔ راستہ کی پیمائش اور قدم کے اتار چڑھاو میں سنت نبوی کے پیکر نظر آتے تھے۔ طلبہ کرام کے ساتھ ہمیشہ مشفقانہ رویہ رکھتے اور ان کی درخواست کو کبھی نظر انداز نہیں کیا کرتے تھے۔ طلبہ کرام کی انجمنوں میں بصد شوق شرکت فرماتے اور ان کی کمی بیشی کو ناصحانہ انداز میں درست فرماتے۔

سفر آخرت

مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب رمضان المبارک سے قبل ہی جسمانی بیماری کے شکار ہوگئے تھے۔ کورونائی عہد کے دوسرے مرحلہ میں دارالعلوم دیوبند سے ایسے بافیض اور باکمال اشخاص رخصت ہوئے ہیں جن کے تلافی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ دور حاضر کے بے مثال ادیب اور نئے طرز و ادا کے موجد مولانا نور عالم خلیل امینی رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں ہزاروں لاکھوں تشنگان علوم اور اپنے چاہنے والوں کو اشکبار کرکے ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئے۔ رمضان المبارک کی اخیر ساعتوں میں محدث وقت، فن اسماء الرجال کے ماہر، اردو زبان کے بہترین انشا پرداز حضرت مولانا حبیب الرحمان اعظمیؒ داغ مفارقت دے گئے۔ امت مسلمہ ابھی ان غموں اور صدموں سے نڈھال ہی تھی، ان کے آنسو خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ دارالعلوم دیوبند کے کارگزار مہتمم، استاذ حدیث، صدر جمعیت علماء ہند قاری عثمان صاحب منصور پوری کا سایہ بھی ہمارے سروں سے اٹھا لیا گیا۔ اس مختصر اور قلیل مدت میں یکے بعد دیگرے تین کبار اساتذہ اور اپنے میدان کے ماہرین کی جدائی سے صرف دارالعلوم ہی نہیں بلکہ پورا عالم اسلام اور علمی حلقہ مغموم تھا۔ ان حوادث کے درمیان ہی مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کی علالت کی خبریں بھی گردش کررہی تھی۔ آپ کے علاج و معالجہ کے لئے ہر ممکن تدابیر اختیار کی گئی۔ دیوبند سے مظفر نگر کے اسپتال میں بغرض علاج رکھا گیا۔ افاقہ نہ ہونے کی صورت میں دہلی منتقل کیا گیا۔ دہلی سے امید افزا خبریں موصول ہوئیں، مولانا کی طبیعت میں افاقہ ہونے لگا۔ محبین و منتسبین کی دعائیں رنگ لانے لگی تھیں۔ آپ دہلی اسپتال سے دیوبند تشریف لائے، امید تھی کہ اس ہنستی مسکراتی شخصیت سے ابھی اور علم و عمل کے چشمے پھوٹیں گے۔ تشنگان علوم نبویہ کو مزید سیرابی کا موقع نصیب ہوگا۔ دارالعلوم دیوبند کے انتظام و انصرام میں آپ مزید حصہ عطا فرمائیں گے۔ آپ کی بے لوث محبت اور اوصاف حمیدہ سے متصف شخصیت سے عوام الناس کو مزید فائدہ اٹھانے کا موقع میسر ہوگا۔ لیکن انسانی تدابیر رب ذو الجلال کے سامنے تار عنکبوت سے بھی کمزور ثابت ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ  آپ کا وقت موعود آ پہنچا تھا۔ اللہ تعالی کو آپ کی ذات سے جو علمی، عملی اور اصلاحی کام لینا تھا وہ لے چکا تھا۔ اب تو آپ کو بار گاہ رب العالمین میں جاکر دنیا میں کی گئی محنت و مشقت اور رضاء الٰہی کے واسطے گزاری گئی زندگی کا اجر لینا تھا۔ دیوبند میں رہتے ہوئے پھر آپ کی طبیعت میں بگاڑ پیدا ہوا، آنا فانا آپ کو مظفر نگر لے جایا گیا لیکن آپ اپنے وقت موعود پر خدا کی بار گاہ میں حاضری دینے کے لئے روانہ ہوگئے۔ 30 جولائی 2021کو بعد نماز جمعہ یہ خبر موصول ہوئی کہ آپ ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئے ہیں۔ اسی رات آپ کا جنازہ دیوبند لایا گیا اور ہزاروں سوگوار کی موجودگی میں مہتمم دارالعلوم دیوبند مفتی ابو القاسم صاحب نے نماز جنازہ ادا کی۔ آپ کی آخری آرام گاہ مزار قاسمی ہے، جہاں علماء دیوبند مدفون ہیں۔ 

Related Posts

0 thoughts on “مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے