مطالعہ سیرت کی اہمیت و افادیت

موجودہ وقت میں لوگوں کے پاس وقت گزاری کے اتنے اسباب پیدا ہوگئے ہیں کہ ہمہ وقت ہر کوئی مشغول رہتا ہے۔ آج لوگوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انہیں وقت میسر نہیں ہے اور کسی خارجی کام کے لئے وقت نکالنا کافی دقت طلب کام ہے۔ مصروفیت و مشغولیت کے اس دور میں انسان جتنا اپنے اعزہ و اقارب سے دور ہوا ہے اس سے کہیں زیادہ وہ زندگی کی بنیادی باتوں سے بھی دور ہوگیا ہے۔ ہمارا بیشتر وقت ایسے کاموں میں مصروف ہوتا ہے جو بظاہر بہت ضروری ہوتے ہیں لیکن در حقیقت وہ ضروری نہیں ہوتے ہیں بلکہ انہیں ضروری بنا لیا جاتا ہے۔ غیر اہم واقعات و حادثات ہمارے لئے غیر معمولی بن جاتے ہیں جبکہ اہم اور بنیادی مسائل ہمارے لئے کوئی کشش نہیں رکھتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، تحقیق و تدقیق کا جوش، فکر و عمل کی قوت غیر محسوس طریقے سے ہماری زندگی سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارے لئے  ضروری کام کیا ہے، اور کن باتوں کو جاننا ہمارے لئے زیادہ ضروری ہے، یہ طے کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر زندگی ادھوری اور ناقص رہ جاتی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارے لئے سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ ناگزیر ہے، اس کے بغیر ہماری زندگی عملی طور سے اسلامی شناخت و پرداخت کی حامل نہیں ہوسکتی ہے۔ ہمیں سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ کیوں کرنا چاہئے، آئیے چند بنیادی وجوہات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

مطالعہ سیرت کیوں ضروری ہے

سیرت رسول کے دو پہلو ہیں اور دونوں پہلو اہم اور ضروری ہے۔ سیرت رسول کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ ﷺ کی پیدائش کب ہوئی، کہاں ہوئی، نبوت کب ملی، سب سے پہلے کن لوگوں نے اسلام قبول کیا، کن لوگوں نے اسلام کی مخالفت کی، معراج کا واقعہ کب پیش آیا، ہجرت کب ہوئی، جنگ بدر وغیرہ کی تاریخ اور ان کے نتائج کیا ہیں۔ ان تمام تاریخوں اور واقعات کو جاننا ہمارے لئے ضروری ہے کہ یہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کی زندگی کے حالات ہیں۔ سیرت رسول کا دوسرا پہلو وہ ہے جو اوامر و نواہی پر مشتمل ہے۔ نماز کب فرض ہوئی، کتنے رکعات فرض ہوئیں، روزہ کب فرض ہوا، پڑوسیوں کے حقوق کیا ہیں، تجارت کے اصول و ضوابط کیا ہیں، جنگ کے قوانین کیا ہیں ، کن امور کی انجام دہی کا حکم دیا گیا ہے اور کن امور سے اجتناب کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ سیرت رسول ﷺ کے مطالعہ کے بغیر ہمارے لئے یہ جاننا مشکل ترین امر ہوگا کہ ہم نماز کیسے ادا کریں، روزے کیسے رکھیں، کب رکھیں، زکوۃ کیسے اور کن کو ادا کریں، غرضیکہ تمام اسلامی شعائر اور اوامر و نواہی کا دار و مدار سیرت رسول پر منحصر ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی زندگی کو مسلمانوں کے لئے اسوہ (نمونہ) قرار دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اپنی زندگی  رسول اللہ کی زندگی کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں۔ لیکن یہ کوشش کب اور کیسے ہوگی۔ جب تک ہم رسول اللہ کی زندگی کے طور طریقوں سے واقف نہیں ہوں گے ہم اتباع کیسے کریں گے۔ آپ ﷺ کے اخلاق و عادات کیا تھے، بچوں کے ساتھ آپ ﷺ کا برتاؤ کیسا تھا، پڑوسیوں کا آپ کتنا خیال رکھتے تھے، اپنے احباب کی کیسے دلجوئی اور مدد فرمایا کرتے تھے، بیواؤں اور یتیموں کی کفالت کے کیا ذرائع اختیار فرماتے تھے، اہل شہر کے ساتھ آپ کا معاملہ کتنا منصفانہ تھا، یہودیوں کا فیصلہ آپ کن بنیادوں پر کیا کرتے تھے، اشاعت دین اور تبلیغ دین کے لئے صحابہ کرام کو کیا تعلیم دی جاتی تھی، باہر سے آنے والے مہمانوں کا کیسے استقبال کرتے تھے وغیرہ۔ یہ تمام باتیں اور آپ ﷺ کی زندگی کی صحیح تصویر ہمیں مطالعہ سیرت سے حاصل ہوگی۔

بحیثیت مسلمان ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کو اللہ تعالی نے رحمۃ اللعالمین کہا ہے تو کیوں کہا ہے۔ آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کو ‘خلق عظیم’ کیوں قرار دیا گیا ہے، آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کو اللہ نے اپنی اطاعت و فرمانبرداری کیوں قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کو مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ دنیا میں بسنے والے تمام حیوانات و نباتات  اور جمادات کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ چنانچہ جب ہم سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے صرف مسلمانوں یا انسانوں کے حقوق کو بیان نہیں فرمایا ہے بلکہ دیگر مخلوق خدا کے حقوق کو بھی آپ ﷺ نے صاف اور واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ ہجرت کے بعد جب مکہ میں سخت قحط پڑا  ، اہل مکہ بھوک پیاس کی شدت سے تڑپنے لگے تو ایسے وقت میں جبکہ مسلمان خود پریشانی کی حالت میں تھے، آپ ﷺ نے پانچ سو اشرفیاں مکہ کے لوگوں کی ضرورت کے لئے بھیجا جبکہ یہ وہ زمانہ ہے کہ اہل مکہ آپ ﷺ اور مسلمانوں کے سب سے بڑے جانی دشمن تھے۔ جب حضرت ثمامہ بن اثال نے مکہ والوں کا غلہ بند کردیا توآپ ﷺ نے حکم دیا کہ غلہ بند نہ کیا جائے۔ اُس دور میں باربرداری کے لئے اونٹ سے سے بہتر جانور تھا، آپ ﷺ نے اس کے متعلق بھی حکم دیا کہ ضرورت سے زیادہ بوجھ اس پر نہ لادا جائے۔ نیز ان کی خوراک کا مکمل خیال رکھا جائے۔ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے کہ جانور بھی آپ ﷺ کے پاس اپنی فریاد لے کر پہنچ جایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کی فرقت میں ستون حنانہ کا رونا، کنکر کا کلمہ پڑھنا، اشجار کا آپ کو سلام کرنا، بادل کا سایہ کرنا سب کچھ موجود ہے۔ یہ سب اساطیری اور افسانوی باتیں نہیں ہیں بلکہ فن اسماء رجال کے ترازو میں پرکھی ہوئی ایسی احادیث ہیں جن کا انکار ممکن نہیں ہے۔

آپ ﷺ کے اخلاق و کردار کا عالَم یہ تھا کہ آپ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا ہے، آپ ﷺ نے اپنی جان کے دشمنوں کو بھی معاف کردیا ہے۔ فتح مکہ کے وقت جب پورا مکہ سر جھکائے آپ کے سامنے کھڑا تھا، اور ‘ہندہ’ جس نے آپ کے محبوب چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا وہ بھی موجود تھیں، لیکن آپ نے کوئی مواخذہ نہیں کیا اور عام معافی کا اعلان فرمادیا۔ آپ نے غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو ضروری قرار دیا، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا جو خود کھاؤ اپنے غلاموں کو کھلاؤ، جو خود پہنو اپنے غلاموں کو پہناؤ۔ عورت ذات جو صدیوں سے مظلوم و مقہور تھیں انہیں باعزت مقام عطا فرمایا، اور ان کے حقوق متعین فرمائے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں دس سال تک آپ کی خدمت میں رہا لیکن آپ نے کبھی مجھے ڈانٹا نہیں بلکہ یہ بھی نہیں پوچھا کہ یہ کام کیوں کیا اور یہ کام کیوں نہیں کیا۔

موجودہ وقت میں ایک سازش کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اسلامی تعلیمات کو دور حاضر کے خلاف بتانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعض اوقات ایسے سوالات قائم کئے جاتے ہیں جو بظاہر بہت معقول اور منطقی ہوتے ہیں لیکن جب ہم اسلامی تعلیمات کو دیکھتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوالات جہالت اور عداوت پر مبنی ہے۔ سیاق و سباق کو کاٹ کر ایسے سوالات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ دنیا مذہب اسلام سے دور ہوجائے اور اسلامی تعلیمات کو اپنانے سے بیزار ہوجائے۔ حضرت عائشہ سے آپ کا نکاح، وراثت میں بیٹیوں کو نصف میراث، عورت کے لئے پردہ، پانچ وقت کی نمازیں، رمضان المبارک میں پورے دن کا روزہ، غزوات نبوی ﷺ، قرآن مجید کی مختلف آیات پر شکوک و شبہات، مختلف احادیث پر اعتراضات نیز اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں جنہیں آج کے دور میں مدعا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان اعتراضات کے ذریعے ان مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے کی سعی کی جاتی ہے جو سیرت رسول سے مکمل آگاہ نہیں ہوتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کے بنیادی عقائد سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ موجودہ وقت میں دشمنان اسلام جو بھی سوالات کر رہے ہیں ان تمام کے تشفی بخش جوابات ہمیں سیرت کی کتابوں میں ملیں گے۔ یہ اعتراضات و سوالات نئے نہیں ہیں بلکہ مخالف اسلام نے موجودہ وقت میں اپنا چوغہ بدل لیا ہے۔ نئی بوتل میں وہی پرانی شراب ہے جسے پی کر اور پلاکر یہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کے درپے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ موجودہ وقت کی مصروفیات و مشغولیات سے وقت نکال کر ہمیں سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ ہم اپنے نبی ﷺ کی حیات طیبہ اور تعلیمات سے مکمل آگاہی حاصل کرسکیں۔

حضرت عائشہ سے نکاح کے اسباب و وجوہات اور نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کیا تھی مکمل تفصیل سے جاننے کے لئے کلک کریں

 

Related Posts

3 thoughts on “مطالعہ سیرت کی اہمیت و افادیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے