مسلم لڑکیوں کی تعلیم کا مقصد؟

مسلم لڑکیوں کی تعلیم کا مقصد؟

موجودہ وقت میں یہ طے کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ حصول تعلیم کا مقصد کیا ہے؟ کیونکہ بغیر مقصد متعین کئے کسی چیز کی تگ و دو میں رہنا اور سعی بسیار کے بعد اسے حاصل کرنا اور پھر حیران و پریشان ہونا کہ ہم نے اب تک یہ کیوں کیا؟ یہ دانش مندی اور خرد مندی کے سراسر منافی ہے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی، فلسفہ اور منطق نیز مادیت پرستی کا زمانہ ہے، جہاں ہر چیز کو ناپنے کا  آلہ موجود ہے۔ پانی کی رفتار، روشنی کی سرعت، ہواؤں کی روش اور پتوں کی سرسراہٹ تمام چیزیں انسانی عقل کے احاطہ میں ہے۔ ہر کام کو انجام دینے سے قبل اس کے وجوہات اور اسباب و علل پر بات ہوتی ہے، اگر عقل پرستی کے دلداوہ افراد روز مرہ کے معمولات میں اس حد تک عقل پرستی کے خوگر بنے ہوئے ہیں تو یہ سوال بجا ہے کہ موجودہ وقت میں تعلیمی لیاقت اور اونچی اونچی ڈگریوں کا مقصد کیا ہے؟ جو لوگ دینی معاملات میں اپنی محدود اور مختصر سی عقل کو پیمانہ تصور کئے بیٹھے ہیں اور اسے کافی و شافی سمجھتے ہیں ایسے افراد سے یہ سوال پوچھا جانا ضروری ہے کہ مسلم لڑکیوں کی تعلیم کا مقصد کیا ہے۔

تعلیمی ڈگریوں کو کئی زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے، انسان کی علمی قابلیت کی سند ہے جس کی بنیادپر  اسے تلاش معاش کی خاطر سرگرداں ہونے کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔ قومی سطح اور عالمی سطح کے مستند تجارتی ادارے ایسے افراد کی خدمات حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جن کے ہاتھوں میں اعلی تعلیمی اداروں کی اعلی سندیں ہوتی ہیں۔ حصول تعلیم اور قابل ذکر اسناد کی ایک وجہ محض خاندانی روایات کا نام و نمود اور سند یافتگان کے ناموں کے سابقہ اور لاحقہ کو مزید خوبصورت بنانے کے لئے بھی ہوتا ہے۔ بعض افراد کی تگ و دو محض والدین کی رضا جوئی کی خاطر ہوتی ہے، لیکن اب حصول تعلیم کے سلسلہ میں ایک نیا رجحان بہت تیزی سے دیکھنے کو مل رہا ہے، یہ ایسا رجحان ہے جس کی خاطر ہزاروں نہیں بلکہ کاغذ کی اسناد جمع کرنے کی دوڑ دھوپ میں لاکھوں خرچ ہوتے ہیں، برسوں تک امتحانات کے لئے خوار ہونا پڑتا ہے، مختلف قسم کے آلام و مصائب اور حالات کی سنگینی کے باوجود خود کو مشقت میں ڈالنا ہوتا ہے لیکن ان تمام کا ماحصل معاشرہ کی بھلائی، سدھار یا قومی خدمات نہیں ہوتی ہے بلکہ ایسا عموما بچیوں کی تعلیم کے لئے کیا جاتا ہے تاکہ انہیں مناسب رشتے مل سکے۔ مسلم معاشرہ میں رشتوں کے انتخاب کی لکیر دینی امور سے ہٹ کر کاغذی پلندہ پر آکر ٹھہر گئی ہے۔ کیا مسلم معاشرہ کے لئے یہ بات قابل غور نہیں ہے کہ ہم اپنی بچیوں کو تعلیم اس لئے دلا رہے ہیں تاکہ انہیں مناسب رشتہ مل سکے۔ ظاہری نمود اور نمائش نے ہمیں حالات سے ایسے موڑ پر کھڑا کردیا ہے جہاں ہم تعلیم کو بہتری کا ذریعہ نہیں بلکہ شادی بیاہ اور رشتوں میں پیش کرنے کا سامنے تصور کرنے لگے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب تعلیم کا مقصد ہی انوکھا ہو تو اس کے نتائج بھی انوکھے اور عجیب و غریب ثابت ہوں گے۔

تعلیم یافتہ خواتین کا کردار معاشرہ کی اصلاح اور بچوں کی تربیت میں ہمیشہ سے اہم اور بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ لیکن قابل غور پہلو یہ ہے کہ جن حالات، ماحول اور وجوہات کی بنا پر انہیں تعلیم دلائی جارہی ہیں ان سے خیر کی توقع کی جاسکتی ہے اور انہیں صالح معاشرہ کی تشکیل کا تخلیق کار تصور کیا جاسکتا ہے؟اس غیر ضروری رجحان نے ہمارے معاشرہ کو کئی طرح کے مسائل سے دوچار کردیا ہے، ایک جانب والدین اپنی بچیوں کو تعلیم دلانے کے کوشاں رہتے ہیں اور پھر شادی وغیرہ کے مواقع پر غیر ضروری اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، موجودہ وقت میں آئے دن پیدا ہونے والے فتنہ میں اس نظام تعلیم کا بہت بڑا دخل ہے۔ مسلم بچیاں ایسے اداروں اور ایسے معلمین کے یہاں امتحانات کی تیاری کے لئے جاتی ہیں جہاں مخلوط نظام ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں فتنوں کے اندیشے مزید گہرے ہوجاتے ہیں اور زیادہ تشویش ناک صورت حال یہ ہے کہ ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ مخصوص ذہنیت کے حامل افراد ایسے اوباش اور بدقماش لوگوں کی جماعت بندی میں مصروف ہیں جو مسلم بچیوں کو راہ راست سے ہٹانے اور انہیں دین مستقیم سے دور کرنے کی ہر ممکن سعی کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں آئے دن ہم فتنہ  ارتداد کی خبروں کو دیکھتے ہیں اور اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ اتنے عظیم فتنہ کو سن کر بھی ہمارے دلوں میں کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوتی ہے اور ایمانی غیرت بیداری کا ثبوت پیش کرنے سے عاجز و قاصر ہوتی ہے۔ فتنہ ارتداد کی خبریں تسلسل کے ساتھ ہماری سماعت سے ٹکرا رہی ہے، آئے دن معاشرہ اور سماج میں ایسے واقعات پیش آرہے ہیں لیکن ہم بنیادی عوامل پر غور و خوض کرنے کے بجائے باتیں بنانے اور دوسروں پر لعن طعن کرنے میں مصروف ہیں اور یہ سوچ کر مطمئن ہیں کہ یہ وبا اور فتنہ ہمارے گھر میں نہیں ہے۔ مسلم معاشرہ نہیں ایک کنبہ ہے جہاں ایک فرد کی جسمانی و روحانی بیماری پورے معاشرہ کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہونی چاہئے تھی لیکن ہمارے قلوب اس درجہ سخت ہوچکے ہیں کہ اب ہم اپنے گھر کی چہار دیواری سے باہر دیکھنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔

خدارا! اس تصور سے باہر آئیے، اپنی بچیوں اور بچوں کے ایمان کی حفاظت کیجیے، ان کو دینی تعلیم سے آراستہ کیجئے، ان کی دنیا بنانے اور بہترین رشتوں کی تلاش میں ان کی عاقبت سے کھلواڑ نہ کیجئے۔ ہمارے نبی ﷺ نے اس نکاح کو برکت والا قرار دیا ہے جس میں ایمان اور دین کو فوقیت دی جائے۔ ایمان سے زیادہ بڑی دولت روئے زمین پر اور کچھ نہیں ہے، دنیا اپنی تمام تر وسائل سمیت دولت ایمان کے سامنے ہیچ ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایمان ایسی کوئی مادی شے نہیں ہے جسے دیکھ کر دل بہلایا جائے، البتہ ایمان وہ دولت ہے جس کی روحانی لذت سے جو آشنا ہوجائے تو پھر ابراہیم بن ادہم کی  مانند سلطنت بھی اسے خوار نظر آتی ہے۔ عمر بن عبد العزیز کی مانند سوکھی روٹی بھی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اتنی ہی موثر اور کارگر تصور کی جاتی ہے جیسے انواع و اقسام کے پر تکلف اور لذیذ کھانے۔ ایمان کی قیمت و اہمیت کا اندازہ رسول اکرم ﷺ سے اس قول سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے حضرت ابوہریرہ سے فرمایا تھا: "ابوہریرہ اگر تمہیں قتل کردیا جائے یا جلا دیا جائے تو بھی کسی کو اللہ کےساتھ شریک نہ ٹھہرانا’۔ آج ہم اپنی بچیوں کو ایسے راستے پر ڈالنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جو انہیں بے دینی، بے حیائی، بے غیرتی اور سب سے بڑھ کر غیر اللہ کی جانب موڑ نے کا سبب بن رہا ہے لیکن اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے۔ تعلیم دلانا اور تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے لیکن ایسی تعلیم جو دین و ایمان کے ساتھ سمجھوتے تک پہنچادے اس سے بہتر ہے کہ ان کاغذی پلندوں سے انسان خود کو دور رکھے یا ایسے ماحول کا انتخاب کرے جہاں عزت نفس سمیت دولت ایمان کا تحفظ متیقن ہو۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے