*مسلم سماج اور ہوٹل کلچر*
امانت علی قاسمی
ششماہی کی تعطیل کی مناسبت سے حیدرآباد جانا ہوا ویسے تو قریب دس سال وہاں رہنے اور چیزوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔میری طبیعت شروع سے ہی تجزیاتی ہے ۔ایک مرتبہ حیدرآباد کے سفر کے دوران میں اپنے میزبان کے ساتھ گاڑی سے گزر رہا تھا اُس علاقے میں شادی خانے اور فنکشن ہال بہت تھے اور بہت مہنگےمہنگے تھے میں نے اپنے میزبان سے کہا کہ یہاں فنکشن حال اتنے زیادہ اور اتنے بڑے بڑے ہیں جب کہ اس کے مقابل مسلمانوں کے اپنے اسکول اس قدر نہیں ہیں جو لوگ اتنا خرچ کرکے فنکشن ہال بنا سکتے ہیں وہ اسکول بھی بنا سکتے ہیں؛ لیکن اسکول کے لیے مسلسل محنت کرنی ہوگی اور فنکشن ہال کے لیے وقتی پیسہ اور محنت کرنی ہوگی ؛اس لیے یہاں لوگ اسکول کے بجائے فنکشن ہال تعمیر کرتے ہیں؛ حالاں کہ اسکول سے قوم کی تعمیر ہوگی، فنکشن ہال سے فرد کی تعمیر ہوگی۔
اِس سفر میں ہوٹل کلچر کا خوب مشاہدہ کیا۔ حیدرآباد میں میرے خیال کے مطابق مسلمانوں کے شادی خانے اور ہوٹل بہت زیادہ ہیں اور یہ ہوٹل معمولی نہیں ؛بلکہ بہت معیاری اور مہنگے علاقوں میں عالی شان بنے ہوئے ہیں جن میں کھانے کا صرفہ بھی بہت زیادہ آتا ہے جو عام لوگوں کی استطاعت سے باہر ہے ۔مزدور طبقہ ان ہوٹلوں کا رخ نہیں کرتا ہے ،ان کے لیے الگ ہوٹل ہوتے ہیں ۔
میں نے غور کیا کہ اس قدر مہنگے ہوٹل ہیں اور کثرت سے ہیں اس کے بعد سب کے سب آباد بھی ہیں آپ جائیں تو بیٹھنے کے لیے انتظار کرنا پڑے گا آخر کیا وجہ ہے ؟ مجھے اس کی چند وجوہات سمجھ میں آئیں : حیدرآباد میں آئی ٹی کمپنیاں ہیں جن میں تنخواہوں کا معیار کافی بلند ہے عام طور پرتنخواہ ایک لاکھ سے شروع ہوتی ہے تین لاکھ چار لاکھ ماہانہ تنخواہیں ہوتی ہیں؛ اسی طرح ایمزون، گوگل اور فیس بک کی کمپنیاں ہیں جن میں تنخواہیں اچھی ہیں ان لوگوں کو اپنے معیار کے مطابق اچھے ہوٹلوں کی تلاش ہوتی ہے اور ہفتے میں دو دن چھٹی میں ضرور ان ہوٹلوں میں جانا پسند کرتے ہیں ؛اسی طرح ہوش ربا گرانی اور ضروریات زندگی موجودہ معیارکے مطابق پورا نہ ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ لوگ باہر ملکوں میں ملازمت کرتے ہیں ان میں بعض لوگوں کی تنخواہیں بہت اچھی ہوتی ہیں وہ ماہانہ ایک لاکھ سے زائد روپیے گھر بھیجتے ہیں اب گھر والوں کو بھی خرچ کرنے کے لیے اچھے شاپنگ مال اور معیاری ہوٹل کی ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ہے ان ہوٹلوں میں مردوں کے علاوہ خواتین بھی کثرت سے ہوتی ہیں ۔
ہمارے مزاج میں نقالی بہت ہے نقل اتارنے کی عادت نے ہمیں اپنی اصل سے محروم کردیا ہے؛ اسی نقل کی عادت نے ان لوگوں کو بھی ان ہوٹلوں تک پہنچا دیا ہے جن کی استطاعت نہیں ہے ،اسی طرح حیدرآباد ایک تہذیبی روایات اور تاریخی اقدار کا حامل شہر ہے یہاں زائرین کی بھی کثرت ہے وہ لوگ خود بھی اچھے ہوٹلوں میں جانا پسند کرتے ہیں اور میزبان بھی اپنے مہمان کی اچھی ضیافت کی خواہش میں اس طرح کے ہوٹلوں کا رخ کرتے ہیں۔ گھر بیٹھے آڈر کرکے کھانا منگانے کی سہولت نے مزید اس کو فروغ دیا ہے اور یوں ’’ہوٹل کلچر‘‘ وجود میں آگیا ہے۔ویسے تو ہوٹلوں میں کھانا یہ عام مزاج بنتا جا رہا ہے اور ہر جگہ اور تقریبا ہر بڑے شہر کی یہی حالت ہے ۔گھر وں میں عورتوں میں بھی مزاج عام ہوتاجارہاہے اور ہفتہ میں ایک دو دن باہر کے کھانے کی فرمائش عورتوں میں بڑھتی جارہی ہے اس کی وجہ موبائیل اور سیریلوں کی مصروفیات بھی ہوسکتی ہیں۔
حیدرآباد میں دم کی بریانی دم توڑ رہی ہے اور اس گرانی اور مندی کے زمانے میں’’ مندی کھانا‘‘ عروج پر ہے، مندی کے لیے باضابطہ الگ سیکشن بنائے جاتے ہیں جس میں کھانے کے لیے ٹیبل کرسی نہیں ہوتی ؛بلکہ بیٹھ کرگاؤ تکیےکے ساتھ کھانے کا نظم ہوتا ہے اور بہت سی جگہوں پر لب سڑک اوپرکی منزل پر بیٹھ کرفراٹے مارتی ہوئی گاڑیوں کے خوشنما منظر کے ساتھ کھانے کا لطف لیا جاتا ہے اور سیلفی کاشوق پورا کیا جاتا ہے۔ ایک جگہ چند ساتھیوں کے ساتھ مندی کھانے کے لیے گیا وہاں بھیڑ کا یہ حال تھا کہ بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں ملی بالآخر ہوٹل کے دوسرے حصے جو مندی کے لیے مخصوص نہیں تھے وہیں کھانا کھالیا ۔ایک جگہ رات میں میرے ایک عزیز شاگرد نے اصرار کیا کہ فلاں ہوٹل میں مندی اچھی ملتی ہے اوروہ مجھےوہاں لے گیے، قریب جاکر ان کا ارادہ بدل گیا انہوں نے کہا کہ حضرت فش( مچھلی) کھاتے ہیں انہوں نے فش کی انواع کے نام بھی لیے جو مجھے یاد نہیں رہے، وہ بھی حیدرآباد کے مشہور اور مہنگے ہوٹلوں میں شمار ہوتا ہے ’عام طور پرہوٹلوں میں فیملی سیکشن ہوتا ہے جس میں مکمل پردے کا اہتمام ہوتا ہے؛ لیکن جس ہوٹل میں گیا وہاں فیملی سیکشن اور عام زون میں صرف شیشے کی دیوار حائل تھی آدھے گھنٹے سے زائد انتظار کے بعد مطلوبہ کھانا پروسہ گیا مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ عام زون میں جگہ خالی تھی اور فیملی زون بھرا ہوا تھا اس میں صرف نقاب پوش خواتین تھیں اور یہ ساڑھے گیارہ بجے رات کی بات ہے۔ اور وہ علاقہ حیدرآباد میں دینی مزاج رکھنے والا علاقہ تھا۔
محسوس ہوا کہ ہوٹل کلچر دل و دماغ پر حاوی ہوگیا ہے جو سہولیات کے ساتھ بہت سے مفاسد کا پیش خیمہ ہے۔ اسلام نے جس کفایت شعاری کی تعلیم دی ہے ہوٹل کلچر اس کے خلاف ہے ۔مسلم علاقوں میں ہوٹل کی کثرت اور دیر رات تک چہل پہل ہوتی ہے ، دہلی کے ذاکر نگر اور بٹلہ ہاؤس علاقے میں رات بارہ بجے تک اس قدر رونق ہوتی ہے کہ محسوس ہوتاہے کہ ابھي رات کے سات یا آٹھ بجے ہوں گے۔ اس طرح مسلم علاقوں میں کھانے کے لیے نوجوان رات دیر تک ہوٹلوں کے چکر لگاتے ہیں اور دن کے دس بجے تک خواب غفلت میں مست ہوتے ہیں ۔یہ رواج عام ہوتا جارہا ہے ؛بلکہ نیے نیے ہوٹلوںکا تجزبہ کرنے اورذائقہ بدلنے کی ایک لت مسلم نوجوانوں میں لگتی جارہی ہے ۔ایک ہفتہ ایک ہوٹل جاتے ہیں اوردوسرے ہفتے دوسرے ہوٹل میں اور بسا اوقات صرف کھانے کے لیے پچاس یا سو کلو میٹر کا سفر کرتے ہیں یہ جنون اس قدر بڑھتا جارہا ہے کہ نیشنل ہائیوے پر بنے ڈھابے پر صرف کھانا کھانے جاتے ہیں اور جس قدر کھانے کا صرفہ آتاہے اس سے کہیں زیادہ پٹرول کا صرف آرہا ہے ۔یہ شوق و جنون مسلم سماج کے لیے بڑے بھیانک نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے ۔ایک ایسے ملک میں جہاں مسلمانوں کی حالت سب سے زیادہ ابتر ہو وہاں اگر چند افراد کے پاس پیسے ہوں تو ان کو اس طرح خرچ کرنا اوراجتماعی سماج کی خوشحالی ، معاشی بہتری کی کوشش کے بجائے اس طرح غفلت اورلایعنی کی زندگی گزارنا ان نوجوانوں کے لیے جن کے ہاتھوں قوم کا مستقبل ہے کس قدر افسوس ناک رویہ ہوسکتاہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں