متکلم اسلام مولانا محمد اسلم قاسمی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو
اس عالم رنگ وبو کی ہر کیاری کی آبادی اور شادابی کا نظم ونسق عالم بالا سے کیا جاتا ہے، اس گلشن صد رنگ میں ہر روز کوئی نیا پھول کھلتا ہے، تو وہیں کوئی پھول اپنی شادابی ورعنائی سے ایک زمانہ کو اپنی خوش بو سے معمور، اور اپنی حیات مستعار کی تکمیل؛ کرکے رخت سفر باندھ کر عالم بقا اور دارالخلد کی طرف کوچ کرجاتا ہے۔ یہ آمد ورفت اور کھلنا ومرجھانا، گلشن صد رنگ کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور سب سے بڑی کمزوری بھی۔ ضرورت اس لحاظ سے کہ تجدد وتنوع کے بغیر تازگی وتابندگی نہیں آتی، اور کمزوری اس اعتبار سے کہ اس سے اس کی فنائیت اور عدم استحکام کی طرف واضح اشارہ موجود ہے، اور فنا کے راستہ عدم میں جا چھپنا کمزوری ہی تو ہے۔ اور یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ اس دار فانی کی سب سے بڑی سچائی اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اس دنیا میں آیا ہے، اسے یہاں سے کوچ کرجانا ہے، گردش زمانہ نے کتنی عظیم عظیم شخصیات اور آفتاب وماہتاب کوغروب ہوتے دیکھا ہے، جن شہنشاہوں کی حکومت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوا کرتا تھا ، اس بے رحم موت نے ان پر زندگی کا سورج غروب کیا ہے،لیکن کچھ ایسے جیالے اور مردان خدا پیدا ہوئے ہیں جن کے انمٹ نقوش کو مٹانے سے موت بھی عاجز و قاصر رہی ہے،ان کے کارنامے پس مرگ بھی زندہ ہیں،دارفانی سے کوچ کرجانے کے بعد بھی ان کے فضل و کمال سے دنیا مستفیض ہورہی ہے،انہی چیدہ اور نامور ہستیوں میں متکلم اسلام حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی صدر المدرسین، ناظم تعلیمات شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے،اب آپ ہمارے درمیان نہیں ہیں، یقینا ہمارے سروں سے آپ کا سایہ اٹھ گیا ہے لیکن آپ نے جو اپنا علمی ورثہ بشکل تصنیف و تالیف چھوڑا ہے وہ کسی نہ کسی حد تک مے کشوں کیلئے تشفی کا باعث ضرور ہے۔
تاریخ پیدائش: آپ کی پیدائش 3/جون 1937 کو علم و عمل کے پیکر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے گھر ہوئی،آپ کو اللہ نے ایسے خانوادہ کا فرد بنا کر اس دنیا میں بھیجا تھا جو ملک ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالم عرب کیلئے بھی مرجع کی حیثیت رکھتا تھا،آپ کی نشو و نما خالص مذہبی اور دینی ماحول میں ہوئی،آپ کا پورا بچپن اکابرین دیوبند کے درمیان گزرا،چنانچہ حصول علم کا شوق زمانہ طفلی سے ہی دامن گیر تھا،لہو و لعب اور دیگر لغویات سے مکمل اجتناب کرتے۔ تقریبا سات سال کی عمر سے باضابطہ آپ نے علمی سفر کا آغاز کیا،ابتداءً آپ کو پڑھانے کیلئے قاری محمد کامل صاحب کا انتخاب عمل میں آیا اور آپ نے قرآن مجید کی مکمل تعلیم قاری صاحب سے حاصل کی۔ بعد ازاں شعبۂ فارسی میں داخل ہوئے،چار سال تک مسلسل فارسی زبان و ادب سے وابستہ رہے،فارسی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عربی درجات میں داخل ہوئے،جہد مسلسل کے ساتھ آپ نے تعلیمی سفر کو جاری رکھا،1957 میں دورہ حدیث سے فراغت ہوئی،آپ کے مشہور اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی،حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب قاسمی ،مولانا نصیر احمد خان اور خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی وغیرہ شامل ہیں،آپ اپنے زمانہ کے ممتاز طلباء میں شمار کئے جاتے تھے۔
عصری علوم کی تکمیل: 1957 میں دارالعلوم سے فراغت کے بعد تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے کیلئے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا،دینی علوم میں سیرابی کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں مہارت تامہ کے حصول کی خاطر علیگڈھ میں ایک مدت تک قیام رہا، یہاں بھی آپ نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا تھا۔خصوصا انگریزی زبان و ادب میں کافی مہارت حاصل کی تھی ۔
عملی زندگی کا آغاز: چند سالوں بعد دارالعلوم دیوبند تشریف آوری ہوئی،دارالعلوم میں آپ بحیثیت ملازم تشریف لائے، آپ بظاہر تو درس و تدریس سے دور رہے لیکن ان ایام میں آپ نے سیرت کو اپنا موضوع بنایا،ابتداء میں چند کتابیں تصنیف فرمائی ، اسی درمیان جب آپ مجموعہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ترتیب میں مصروف تھے ، مصری استاد شیخ محمود عبد الوہاب دفتر میں تشریف لائے ،ان کے ساتھ ایک اور عرب عالم شیخ عبدالتواب مصری بھی تھے ،یہ وہ زمانہ تھا جب شیخ محمود سیرت میں آپ کی راہنمائی فرمارہے تھے ،شیخ عبد التواب مصری سے اس کی ترتیب کے متعلق بتایا، شیخ عبدالتواب نے سب سے پہلا سوال کیا کہ اس سلسہ میں کون کون سی کتابیں مطالعہ میں ہیں،مولانا اسلم صاحب نے چند کتابوں کے نام گنوائے،لیکن ہر مرتبہ وہ کچھ اس انداز میں پوچھتے گویا وہ کسی مخصوص کتاب کا نام سننا چاہ رہے ہیں ،بالآخر انہوں نے خود ہی دریافت کیا کہ سیرت حلبیہ زیر مطالعہ ہے یا نہیں؟چونکہ یہ کتاب اس وقت تک مطالعہ میں نہیں تھی ، اسلئے جواب نفی میں تھا، پھر شیخ عبدالتواب مصری نے اس کتاب کی اہمیت اور اس کی انفرادیت پر ایک مختصر تقریر فرمائی، اور اس کے مطالعہ کا مشورہ دیا۔
یہ پہلا دن تھا جب سیرت حلبیہ کو پڑھنے کا اتفاق ہوا ، پھر جوں جوں اس کا مطالعہ بڑھتا گیا ،یہ احساس شدید سے شدید ہوتا گیا کہ اتنی مفید کتاب کیوں اب تک مطالعہ میں نہیں تھی،اسی مطالعہ کے دوران یہ بات ذہن میں زور پکڑ گئی کہ اتنی مفید کتاب کو نئے اور مفصل انداز میں اردو ترجمہ کرکے پیش کیا جائے ،کیونکہ واقعات کی جو مستند تفصیلات ایک مربوط اور مسلسل انداز کے ساتھ یہاں مذکور ہیں وہ کہیں اور میسر نہیں ہے۔
سیرت حلبیہ پر تحقیق وتشریح نے آپ کو علمی حلقہ کا محبوب بنادیا،سیرت حلبیہ اصلا تو تین جلدوں پر مشتمل تھی، آپ نے ترجمہ ،تحقیق اور مزید معلومات کو یکجا فرماکر اسے چھ جلدوں میں بدل دیا، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب قاسمیؒ اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں کہ ” ترجمہ کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ترجمہ معلوم نہیں ہوتا،اردو زبان کی ایک مستقل کتاب معلوم ہوتی ہے، کیونکہ جابجا اس میں ترجمہ کے ساتھ مفید تشریحات بھی قوسین میں دی گئی ہیں اس لئے اسے ترجمہ سیرت حلبیہ کہنے کے بجائے اردو سیرت حلبیہ کہا جائے تو بے محل نہ ہوگا بلکہ یہ کہنا بھی مبالغہ سے خالی ہوگا کہ خود اگر سیرت حلبیہ کے مصنف بھی اسے عربی سے اردو میں لکھتے تو اس کی تعبیرات شاید وہی یا اس کے لگ بھگ ہوتیں جو عزیز موصوف نے تعبیری طور پر اختیار کی ہیں”۔
سیرت حلبیہ پر کام کرنے کے دوران اکثر مراجعت کیلئے حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تشریف لاتے،عموما بغیر کاپی کے آتے،گھنٹوں تک تبادلۂ خیال کرکے رخصت ہوتے،ایک بار حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری نے دریافت کیا،میاں یہاں گھنٹوں گفتگو کرکے جاتے ہو کچھ دماغ میں رہتا ہے یا سب یونہی ضائع ہوجاتا ہے،آپ دوسرے دن اپنی کاپی کے ساتھ تشریف لائے اور کاپی کو حضرت مولانا انظر شاہ کے سامنے رکھ دیا،آپ پڑھتے جاتے اور کہتے جاتے میاں تم نے تو کمال کردیا ہے،جو بات جس طرح سنتے ہو گھر جاکر بعینہ اسی طرح قلم بند فرمالیا کرتے ہو ۔
ناظم اجلاس صد سالہ دارالعلوم دیوبند: آپ بحیثت منتظم کس حد تک کامیاب تھے اس بات کا اندازہ کرنا ہے تو دارالعلوم دیوبند کا اجلاس صد سالہ کو دیکھ لیا جائے،تقریبا پچیس لاکھ کا مجمع،لیکن آج بھی یہ اجلاس ہندوستان کی تاریخ کا کامیاب ترین اجلاس ہے،آپ کو صد سالہ کیلئے ناظم اجلاس چنا گیا تھا،آپ نے دن و رات ایک کرکے تحمل و بردباری اور جفاکشی کے ساتھ اجلاس کے انتظام کو سنبھالے رکھا،ایک چھوٹے سے قصبہ میں اتنا بڑا مجمع اس سے قبل کبھی وارد نہیں ہوا تھا،عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندر آپ کے حسن انتظام کا ایک نمونہ تھا جو آج بھی تاریخ میں درج ہے۔
قیام دارالعلوم وقف دیوبند: بعد ازاں جب دارالعلوم وقف کے قیام کا قضیہ درپیش ہوا،اور تقریبا ایک سال بعد کتابیں آپ سے وابستہ ہوئی تو دیکھنے والوں نے فکر نانوتوی کے اس امین کو اسی رنگ میں رنگا ہوا پایا جو اس خانوادہ کا وصف ہے. درجات عربی میں از اول عربی تا دورہ حدیث تقریبا سبھی کتابوں کا درس آپ سے متعلق رہا ہے،خصوصا دورہ حدیث میں تدریجا آپ نے تمام کتب احادیث کا درس دیا ہے اور اخیر میں 2008 میں فخر المحدثین حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری کے وصال کے بعد کتب احادیث کی سب سے مستند کتاب بخاری شریف آپ سے متعلق ہوئی.
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا: فن خطابت میں آپ کو اللہ نے والد محترم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کا مکمل پرتو بنایا تھا،سنجیدگی ،طمانینت ،بات میں یکسانیت اور موضوع کا خیال یہ تمام باتیں آپ کو ورثہ میں ملی تھی،پیچیدہ اور مشکل ترین موضوع کو سہل اور آسان زبان میں اس طرح بیان کرتے کہ عوام الناس کو بھی مکمل سیرابی ہوجایا کرتی،چنانچہ آپ کی تحریر و خطابت کے محور صرف علماء کرام نہیں تھے بلکہ دنیاوی دانشوران بھی تھے ،آپ انگریزی زبان میں ماہر تھے، شہر دیوبند جہاں عام طور سے انگریزی زبان کا کوئی چلن نہیں تھا ، آپ دارالعلوم میں زیر تعلیم افریقی طلبہ کو اپنے گھر طیب منزل بلاتے اور تقریبا ہر دن بعد نماز عصر تا مغرب انگریزی زبان میں تکلم کیا کرتے ،چنانچہ جب حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب قاسمی کو دورۂ افریقہ کیلئے ترجمان کی ضرورت پیش آئی تو بالاتفاق اس کام کیلئے آپ کا انتخاب عمل میں آیا، آپ نے حق ترجمانی کو بھی بحسن و خوبی انجام دیا تھا۔ آپ علوم دینیہ اور علوم عصریہ دونوں کے امین تھے ،چنانچہ ورلڈ اسلامک بینک کی جانب سے آپ کی اس خدمات کو سراہتے ہوئے باضابطہ دہرہ دون میں منعقدہ سیمینار میں ایوارڈ سے سرفراز کیاگیا تھا۔
خانوادہ ٔقاسمی کے دیگر ماہتاب و آفتاب کی مانند آپ کا شعری ذوق بہت بلند تھا،آپ نے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب قاسمی کے اشعار کو (فیضان عارف) کی شکل میں مرتب کیا ہے،آپ خود بھی کئی نظم اور نعت کے تخلیق کار ہیں۔
تواضع و انکساری: آپ خاموش مزاج طبیعت کے مالک تھے،بہت کم بولتے لیکن جب بھی بولتے موقع مناسبت سے بولتے،سننے والوں پر رعب طاری ہوجاتا،طلبۂ کرام کے ساتھ ہمیشہ بے تکلفی کا مظاہرہ فرماتے،اگر کبھی کوئی سہوا غلطی کرجاتا تو درگزر فرماتے،سخت کلامی اور ترش روئی سے اجتناب کرتے، مہمانوں کی ضیافت کے موقع پر خود ہی کھانا پیش کرنے کو ترجیح دیتے،اگر کوئی شناسا ملاقات کیلئے تشریف لاتا تو خود دروازہ تک پہونچ کر استقبال کرتے،پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود بارہا گھر کے دروازہ تک مہمان کو رخصت کرنے جاتے،طلبہ کرام سے اس قدر شفقت سے پیش آتے کہ ہر طالب علم کو یوں محسوس ہوتا کہ میں حضرت کی نظر میں سب سے بہتر ہوں،دوران درس بارہا طلبہ کو مخاطب کرکے فرماتے تم میری اولاد کی مانند ہو،جیسا حق میری اولاد کا مجھ پر ہے وہی حق تمہارا بھی ہے،دوران درس صرف کتاب کو مدنظر رکھتے دیگر خارجی گفتگو سے مکمل اجتناب فرماتے،آسان اور سہل زبان میں درس دیتے،مغلق اور پیچیدہ مسائل کو سلجھانے کے ہنر سے خوب واقف تھے،کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ طلبہ کو دوران درس سیرابی حاصل نہ ہوجائے،سوالات کے تشفی بخش جواب مرحمت فرماتے،دوران تعلیم اسفار سے گریز کرتے،خود بھی درس کی پابندی کرتے نتیجتاً آپ کے درس میں طلبہ کا اژدہام ہوتا،غیر متعلق طلبہ کی ایک بڑی جماعت حصول فیض کی خاطر درس میں شرکت کرتی ۔
بیعت و خلافت: علوم ظاہری کے علاوہ علوم باطنی میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا،ابتداء میں والد محترم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب قاسمی سے منسلک ہوئے اور حضرت قاری صاحب کی تربیت میں رہے،شیخ کامل کی مکمل توجہ نے کچھ دنوں میں ہی سونا بنادیاتھا ،حضرت قاری صاحب سے آپ کو خلافت بھی حاصل ہے،حضرت قاری صاحب کے وصال کے بعد مسیح الامت حضرت شیخ مسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی سے وابستہ ہوئے، مسیح الامت حضرت مسیح اللہ خان صاحب کی جانب سے بھی آپ کو خلافت حاصل ہے۔
الغرض آپ باکمال منتظم ،مدرس ،شیخ کامل اور محسن و مشفق مربی تھے،ایک ایسا سایہ جس کے چھاؤں تلے برسوں کے تھکے مسافر کو سکون مل جائے،تشنہ لبوں کو سیرابی میسر آجائے ، اور علوم دینیہ کے پیاسوں کی پیاس بجھ جائے،بالآخر یہ شجر سایہ دار 13 نومبر بروز سوموار بوقت 11/45تمام وابستگان کو داغ مفارقت دے گئے۔
حضرت متکلم اسلام علیہ الرحمہ اپنے زمانہ کےنامور اہل علم میں سے تھے، جو اپنی عالی نسبتوں، خاندانی شرافتوں ونجابتوں اور ذاتی خوبیوں کی بنیاد پر مرجع خلائق بنے ہوے تھے، آپ کی عصر بعد مجلس بڑی علمی ہوا کرتی تھی، جس میں تشنگان علوم مختلف سوالات لے کر حاضر ہوتے، اور شافی ووافی جواب پاکر اپنی تشنگی بجھاتے اور حضرت والا کی علمی قابلیت اور برجستہ وحاضر جوابی پر عش عش کرتے۔ اہالیان شہر بھی مختلف مسائل کے حل کے لیے آپ کے در پر حاضر ہوتے، اور سب کی حوصلہ افزائی اور مسائل کے حل کا طریقہ بتاتے۔ آپ علوم قاسمی کے بہترین شارح اور اپنے مکتب فکر کے باکمال ترجمان تھے، عظیم محدث اور بہت بڑے مصلح اور صاحب نسبت بزرگ تھے۔ یہ چند سطور آپ کی زندگی کے نمایاں خد وخال کو واضح کرنے سے عاجز وقاصر ضرور ہیں؛ لیکن اپنے جذبات واحساسات کی ترجمانی کے لیے کچھ حد تک کافی ہیں۔
ہمارے دیگر مضامین سے استفادہ کیلئے کلک کریں
ماشاءاللہ بہت خوب
Mashallah