ابن خلدون

تاریخ انسانی کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت  واضح طور پر آشکارا  نظر آتی ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف دانشوران اور حکماء نے عوامی فلاح و بہبود کے لئے نت نئے طرز حکومت سے انسانی دنیا کو روشناس کرایا ہے۔ ارسطو، مونتسکیو ، روسو اور کرامین  وغیرہ کے نظریات، حکومت کے مختلف طریقوں پر مشتمل ہے اور ان فلاسفر نے اپنی کتابوں میں ان مسائل پر اپنے نظریے کے اعتبار سے سیر حاصل بحث بھی کی ہے۔ ان کے بنائے گئے اصول و ضوابط اور راہنما ہدایات کی روشنی میں کئی حکومتوں کی داغ بیل ڈالی گئی اور کئی شہر بسائے گئےلیکن ان تمام کا نتیجہ یکساں رہا ہے ،  یہ  تمام طریقے نسل انسانی کے لئے جز وقتی تو فائدے مند ثابت ہوئے لیکن در حقیقت وہ نسل انسانی کے لئے تباہ کن اور ہلاکت خیز نتائج لے کر آئے ہیں۔ ناپائیدار اور غیر مستقل  طرزِ حکومت کے نتائج پر بحث کرتے ہوئے   مشہور اسلامی فلسفی اور مؤرخ ابن خلدون اپنی رائے پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ابن خلدون کے خیال میں صرف دینی حکومت بہترین حکومت ہے، کیوں کہ کسی حکومت کا طبعی مقصد کیا ہے؟ کیا یہ مقصد مصلحت ِعامہ یا مجتمع  کا نفع نہیں ہے؟ اس مصلحت سے واقفیت ضروری ہے تاکہ مؤثر طریقہ پر بیدار مغزی کے ساتھ اس کی حفاظت کی جاسکے لیکن انسان  بہ جز  ان مصلحتوں کے جو اس دنیوی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں، اس کی حقیقت سے کما حقہ واقف نہیں ہوسکتا ہے لیکن دنیوی زندگی کو اخروی زندگی کے حاصل کرنے کا ذریعہ بنانا  چاہئے  اور اخروی زندگی کا علم خدا اور پیغمبروں کے سوا  اور کسی کو نہیں ہوسکتا  اس بنا پر جو قوانین خدا کی جانب سے جاری کئے جاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت دونوں میں انسانی سعادت کے بہترین ذمہ دار ہوتے ہیں۔

خداوند تعالی فرماتا ہے: "یعلمون ظاہرا من الحیوۃ الدنیا و ھم عن الآخرۃ ھم غفلون”۔ (یہ لوگ بس دنیاوی زندگی کے ظاہر حال کو سمجھتے ہیں اور آخرت سے تو یہ لوگ بالکل ہی بے خبر ہیں)۔

اس کارگہ عالم کا خالق اللہ تعالی ہے۔ اس دنیا میں بسنے والے تمام نباتات، جمادات اور حیوانات سب اللہ کی تخلیق کے مظہر ہیں۔ مخلوقات کی ضرورتوں اور ان کے طبعی رجحانات کو خالق سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ بحر و بر میں بسنے والے تمام جاندار آج تک اسی طرز زندگی کے پابند ہیں جن پر انہیں پیدا کیا گیا تھا، ایک انسان ہی ہے جو وقتا فوقتا اپنی ناقص عقل کے استعمال سے فطرت کے خلاف بر سر پیکار نظر آتا ہے۔ اور جب جب یہ فطرت کے خلاف جاتا ہے، تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ انسانی دماغ اور اذہان تمام فوائد و نقصانات کے احاطہ سے عاجز و قاصر ہے، چنانچہ وہ ایسے اصول و ضوابط اور ایسے قاعدے قانون اپنے لئے وضع کرتا ہے جو ترقی اور خوشحالی کے بجائے بربادی اور تباہی کی جانب لے جاتے ہیں۔  لہذٰا، خالق کے بتائے ہوئے راستے اور اس کی جانب سے نازل کردہ احکام ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کو نافذ کرکے ایک بہترین اور دیر پا حکومت کی بنیاد قائم کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اللہ کے احکامات انسانی ضرورتوں اور ان کے طبعی رجحانات اور فطرت کے عین مطابق ہیں۔

 

Related Posts

0 thoughts on “فلسفہ طرزِ حکومت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے