علامہ انور شاہ کشمیری اور شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال

 

علامہ انور شاہ کشمیری اور شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال

کشمیر جو اپنے حسن و جمال، رعنائی و زیبائی، جاذبیت و دلکشی، شبابی و شادابی میں عالمی شہرت رکھتا ہے، کشمیر روئے زمین کا وہ حصہ ہے جسے جنت ارضی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ وہی کشمیر ہے جس نے اپنی آغوش میں میر سید کرمانی، حضرت سید علی ہمدان،  علامہ انور شاہ کشمیری اور  ڈاکٹر محمد اقبال جیسی شخصیتوں کو پروان چڑھایا ہے۔

Allama anwar shah kashmiri aur dr Iqbal
علامہ انور شاہ کشمیری اور ڈاکٹر اقبال

 

علامہ انور شاہ کشمیریؒ (علامہ انور شاہ کشمیری کی حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو کو پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) کی شخصیت علوم اسلامیہ اور دیگر علوم و فنون میں بے مثال تھی۔ آپ نے باضابطہ دارالعلوم دیوبند سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے، اور علم حدیث میں قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (مولانا رشید احمد گنگوہی کی حیات کے متعلق جاننے کے لیے لنک پر کلک کریں) سے بھی اجازت حاصل ہے۔ آپ کو فلسفہ اور جدید علم کلام پر مکمل عبور حاصل تھا، ان کے علاوہ دیگر جدید علوم میں ان کی مہارت قابل رشک تھی۔ علامہ زاہد کوثری فرماتے ہیں کہ امام ابن ہمام کے بعد علامہ انور شاہ کے پایہ کا کوئی محدث پیدا نہیں ہوا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی (علامہ سید سلیمان ندویؒ کی حیات کے متعلق جاننے کے لیے لنک پر کلک کریں) فرماتے ہیں: "علامہ انور شاہ کشمیری وسعت نظر، قوت حافظہ اور کثرت مطالعہ میں اس عہد میں بے نظیر تھے، علوم حدیث کے حافظ و نکتہ شناس، علوم ادب میں بلند پایہ، معقولات میں ماہر، شعر و سخن سے بہرہ مند اور زہد و تقوی میں کامل تھے”۔ 

جبکہ دوسری جانب ڈاکٹر اقبال  بلاد مشرق میں عظیم مفکر، فلسفی اور دین اسلام کے پرجوش داعی  کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری اور ان کے افکار و نظریات نے انہیں ان کی حیات میں ہی  بلندی کے اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ ان کی باتیں اور ان کے خیالات استناد کا درجہ حاصل کر گئے تھے۔ علامہ اقبال پر خامہ فرسائی کرنے والوں نے ان کی زندگی کے مختلف گوشوں کو مختلف ادوار میں پیش کیا ہے۔ شورش کاشمیری ، عبد السلام ندوی اور مولانا ابو الحسن علی ندویؒ جیسے قلم کاروں نے ان کی حیات اور ان کے طرز فکر و استدلال کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ موجودہ دور میں بھی "اقبالیات” باضابطہ ایک فن اور ایک تحقیق و تدقیق کا موضوع ہے، جس پر بے شمار ادبا ءکام کررہے ہیں۔ڈاکٹر اقبال کے افکار و نظریات کی اشاعت و ترویج کے لئے اکیڈمیوں کا قیام عمل میں آیا ہے جو آج بھی ان پر کام کررہے ہیں۔  

لیکن قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں نے "اقبالیات” کو اپنا موضوع بنایا، یا جنہوں نے اقبال کی زندگی پر قلم اٹھائے ہیں یا پھر وہ لوگ جو آج بھی اقبال کے نام پر مختلف زاویوں سے کام کررہے ہیں، انہوں نے اقبال کی زندگی کا ایک اہم پہلو (جس پر خودڈاکٹر اقبال کو بھی ناز تھا) کو فراموش کردیا ہے۔ یا تو یہ حضرات ڈاکٹر اقبال کی محبت میں اس قدر غلو کرگئے  کہ انہوں نے ان کے مقابل کسی کو لانا پسند نہیں کیا، یا پھر ڈاکٹر اقبال کو ایک مولوی (علامہ انور شاہ کشمیری) کی علمی شخصیت کے اعتراف اور ان سے استفادہ کو ہضم نہیں کرسکے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جس قدرڈاکٹر اقبال نے علامہ انور شاہ کشمیری سے استفادہ کیا ہے، اور دینی معاملات اور جدید علم کلام میں راہنمائی حاصل کی ہے، اُتنا ڈاکٹر اقبال نے کسی اور عالم سے استفادہ نہیں کیا ہے۔ڈاکٹر اقبال نے علامہ انور شاہ کشمیری کی علمی شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: "اسلام کی ادھر کی پانچ سو سالہ تاریخ شاہ صاحب کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے”۔ ڈاکٹر اقبال کے اس اعتراف کے باوجود ان کے سوانح نگار اور اقبالیات کے ماہرین کا ان کی زندگی کے اس گوشہ سے صرف نظر دیانتداری کا تقاضا نہیں ہے۔ بلکہ ان حضرات کاان کی زندگی کے اس پہلو کو جہل میں رکھناڈاکٹر اقبال کی شان میں اضافہ کا نہیں بلکہ ان کی زندگی کو ناقص بنانے کے مترادف ہے اور ان کی علمی و فکری شخصیت کے مقام و مرتبہ کے منافی بھی ہے۔  

مولانا محمد صاحب انوری نے مولانا حبیب الرحمان صاحب مکی کے حوالے سے لکھا ہے کہ 1922 میں ، میرا قیام لاہور میں تھا اور ڈاکٹر اقبال کی خدمت میں تسلسل کے ساتھ آنا جانا تھا، میں مسائل کلامیہ میں اکثر اپنے استاذ علامہ انور شاہ کشمیری کا حوالہ دیا کرتا تھا۔ اگر کسی مسئلہ میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے تو میں برجستہ کہتا کہ یہ ہمارے استاذ کی تحقیق سے حل ہوسکتا ہے۔میرے مسلسل تذکرہ کرنے کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے دل میں علامہ انور شاہ کشمیری سے ملاقات کی خواہش بیدار ہوئی۔ انہی ایام میں انجمن خدام الدین کا سالانہ اجلاس حضرت مولانا احمد علی ؒ کے زیر اہتمام لاہور میں منعقد ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا جب علماء دیوبند کا وفد پروگرام میں شرکت کے لئے لاہور پہنچا تھا۔ ڈاکٹر اقبال اس پروگرام میں اہتمام کے ساتھ شرکت فرمایا کرتے تھے۔

اسی موقع پر ڈاکٹر اقبال نے علامہ انور شاہ کشمیری کو اپنی کوٹھی پر بلانے کے لئے خط لکھا تھا۔ ڈاکٹر اقبال صاحب لکھتے ہیں: "مخدوم و مکرم حضرت قبلہ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ مجھے ماسٹر عبد اللہ سے ابھی معلوم ہوا ہے کہ آپ انجمن خدام الدین کے جلسہ میں تشریف لائے ہیں اور ایک دو روز قیام فرمائیں گے، میں اسے اپنی سعادت تصور کروں گا اگر آپ کل شام اپنے دیرینہ مخلص کے ہاں کھانا کھائیں۔ جناب کی وساطت سے حضرت مولوی حبیب الرحمان صاحب قبلہ عثمانی، حضرت مولوی شبیر احمد صاحب اور جناب مفتی عزیز الرحمان صاحب کی خدمت میں بھی یہی التماس ہے۔ مجھے امید ہے کہ جناب اس عریضے کو شرف قبولیت بخشیں گے۔ آپ کو قیام گاہ سے لانے کے لئے سواری یہاں سے بھیج دی جائے گی”۔ 

 ڈاکٹر اقبال کے اس خط سے ان کے والہانہ تعلق اور لگاؤ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس ملاقات میں ڈاکٹر اقبال نے تقریبا ڈھائی گھنٹوں تک مختلف علمی موضوعات پر علامہ انور شاہ کشمیری سے بات چیت کی تھی۔ ان چند ملاقات نے ڈاکٹر اقبال کو علامہ انور شاہ کشمیری کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب شاہ صاحب کے علم کے ایسے دیوانے ہوئے کہ ہر مجلس اور ہر محفل میں ڈاکٹر صاحب کی زبان پر حضرت شاہ  صاحب کے کمالات علمیہ و عملیہ کا ذکر خیر ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ مدراس کے لیکچروں کی ترتیب حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ کی راہنمائی میں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اسی مجموعہ کی ابتدا میں اس امر کا برملا اعتراف فرمایا ہے کہ مولانا محمد انور شاہ صاحب میرے اس میں راہنما ہیں۔ 

حدوث عالم پر علامہ انور شاہ کشمیری کی اہم تصنیف "الضرب الخاتم” جو عربی زبان میں ہے، ڈاکٹر اقبال نے اس کتاب کو سمجھنے کے لئے اور اس کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے بارہا اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ حتی کہ بسا اوقات کتاب کی افہام و تفہیم کے لئے مولانا سعید اکبرآبادی کا سہارا لیا ہے، کبھی زبانی ان کے ذریعہ سوال و جواب کرتے اور کبھی بذریعہ خطوط اپنے شکوک و شبہات کو لکھ کر علامہ انور شاہ کشمیری کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ مولانا سعید احمد اکبرآبادی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ڈاکٹر اقبال نے کہا: "میں تو مولانا انور شاہ کا رسالہ (ضرب الخاتم) پڑھ کر دنگ رہ گیا ہوں کہ رات دن قال اللہ و قال الرسول سے واسطہ رکھنے کے باوجود فلسفہ میں بھی ان کو اس درجہ درک و بصیرت اور اس کے مسائل پر اس قدر گہری نگاہ ہے کہ حدوث عالم پر اس رسالہ میں انہوں نے جو کچھ لکھ دیا ہے، حق یہ ہے کہ آج یورپ کا بڑے سے بڑا فلسفی بھی اس مسئلہ پر اس سے زیادہ نہیں کہہ سکتا”۔  علامہ انور شاہ کشمیری خود فرماتے ہیں: "میرا اپنا قیاس ہے کہ ضرب الخاتم کو جتنا ڈاکٹر اقبال نے سمجھا ہے اُتنا کسی مولوی نے بھی نہیں سمجھا ہے”۔

علامہ یوسف بنوری لکھتے ہیں کہ  1337 ہجری کے درمیان میں، میں نے ڈاکٹر اقبال صاحب کے خاص جناب عبد اللہ چغتائی صاحب کو دیوبند میں دیکھا، ملاقات ہونے پر انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر اقبال صاحب علامہ انور شاہ کشمیری کے فلسفہ میں تبحر کے بہت زیادہ گرویدہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ شاہ صاحب از خود اپنی تصنیف "ضرب الخاتم” کی شرح لکھیں۔ علامہ انور شاہ کشمیری جب کبھی لاہور تشریف لے جاتے یا لاہور سے گزر ہوتا تو ڈاکٹر اقبال بغرض استفادہ ضرور تشریف لاتے، اور اپنے شکوک و شبہات کو شاہ صاحب کے سامنے رکھتے، جب کہ شاہ صاحب شرح و بسط کے ساتھ تمام سوالات کے تشفی جوابات دیا کرتے تھے۔ مقدمہ بہاولپور کے دوران جب کئی دنوں تک لاہور میں شاہ صاحب نے قیام کیا تو بعد نماز فجر آسٹریلیا مسجد میں بیان فرمایا کرتے تھے، اس مجلس میں عوام الناس کا جم غفیر موجود ہوا کرتا تھا، اور ان میں ایک اہم شخص ڈاکٹر اقبال بھی ہوتے تھے۔ 

مسئلہ زمان و مکان ایک زمانہ تک ڈاکٹر اقبال کے مطالعہ کا محور رہا ہے، اور اس سلسلہ میں انہوں نے علامہ انور شاہ کشمیری سے استفادہ بھی کیا ہے۔ 1928میں اورینٹل کانفرس لاہور کے شعبہ عربی و فارسی کے صدارتی خطبے "حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت” میں لکھتے ہیں: "لیکن جدید ریاضیات کے اہم ترین تصورات میں سے ایک تصور کا یہ مختصر حوالہ بالا میرے ذہن کو عراقی کی تصنیف "غایۃ الامکان فی درایۃ المکان” کی طرف منتقل کردیتا ہے، مشہور حدیث "لا تسبوا الدھراِن الدھر ھو اللہ” میں جو دھر کا لفظ آیا ہے اس کے متعلق مولوی سید انور شاہ صاحب سے جو دنیائے اسلام کے جید ترین محدثین وقت میں سے ہیں، میری خط و کتابت ہوئی۔ اس مراسلت کے دوران مولانا موصوف نے مجھے اس مخطوطے کی طرف رجوع کرایا اور بعد ازاں میری درخواست پر از راہ عنایت مجھے اس کی ایک نقل ارسال کی” (بشیر احمد ڈار، انوار اقبال، اقبال اکیڈمی، کراچی)

 مولانا سعید احمد اکبرآبادی لکھتے ہیں: "دارالعلوم دیوبند سے جب علامہ انور شاہ کشمیری نے استعفی دیا تو ڈاکٹر اقبال کو جب  یہ خبر پہنچی تو انہوں نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کو اور صدر المدرسین مل جائیں گے، لیکن میں جو کام شاہ صاحب سے لینا چاہتا ہوں، اس کو سوائے شاہ صاحب کے کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا ۔ مجھے یقین ہے کہ اس کام کو میں اور شاہ صاحب دونوں مل کر ہی انجام دے سکتے ہیں، ہم دونوں کے علاوہ اور کوئی شخص اس وقت عالم اسلام میں ایسا نظر نہیں آتا جو اس عظیم الشان ذمہ داری کا حامل ہوسکے۔ پھر فرمایایہ مسائل کیا ہیں؟ اور ان کا سر چشمہ کہاں ہے؟ میں ایک عرصے سے ان کا بڑے غور سے مطالعہ کررہا ہوں۔ یہ سب مسائل میں شاہ صاحب کے سامنے پیش کروں گا، اور ان کا صحیح اسلامی حل کیا ہے یہ شاہ صاحب بتائیں گے۔ اس طرح ہم دونوں کے اشتراک و تعاون سے فقہ جدید کی تدوین عمل میں آجائے گی”۔ ڈاکٹر اقبال نے علامہ انور شاہ کشمیر ی کو تفصیلی تار بھی روانہ کیا تھا، اور اس بات کی درخواست کی تھی کہ آپ مستقل کے لئے لاہور تشریف لے آئیں، لیکن ڈاکٹر اقبال کا پیغام بر وقت نہیں پہنچ سکا اور جب ڈاکٹر صاحب کا قاصد علامہ انور شاہ کشمیری میں خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت تک شاہ صاحب ڈابھیل والوں سے وعدہ کرچکے تھے۔ 

رد قادیانیت علامہ انور شاہ کشمیری کی زندگی کا نصب العین تھا، آپ نے اس سلسلہ میں کئی کتابیں اور کئی مضامین لکھے ہیں۔ بہاولپور کا مقدمہ اور مونگیر میں مولانا محمد علی مونگیری ( مولانا محمد علی مونگیری کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں) کی زیر نگرانی قادیانیوں سے مناظرہ آپ کی زندگی کا حسین کارنامہ ہے۔ لاہور میں قیام کے دوران برکت علی محمڈن ہال جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے آپ نے اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی تھی۔ آپ کی پُرجوش اور غیرت ایمانی سے بھری ہوئی تقریر نے عوام کو ختم نبوت جیسے حساس مسئلہ کے تئیں سنجیدہ اور حد درجہ بیدار کردیا۔ ڈاکٹر اقبال بھی اس پروگرام میں شامل تھے، ڈاکٹر صاحب پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ قادیانیت کی بیخ کنی کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے قادیانیت کے خلاف بلند پایہ مضامین لکھے اور انجمن حمایت اسلام لاہور کے تمام کالج اور اسکول سے قادیانی ملازمین کو بر طرف کرا دیا تھا۔ 

ڈاکٹر اقبال نے اپنی نظم "ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض” کے عنوان سے سترہ نظمیں اور دو اشعار لکھے ہیں۔ اس نظم کی تشریح کرتے ہوئے محترم یوسف سلیم چشتی اپنی کتاب "ارمغان حجاز با شرح” میں رقم طراز ہیں: "ملا زادہ ضیغم ایک فرضی نام ہے، ضیغم شیر کو کہتے ہیں۔ لولابی، وادی لولاب کا باشندہ، لولاب اس وادی کا نام ہے جو سرینگر اور بارہ مولہ کے درمیان واقع ہے، چونکہ اس وادی میں بہت سے علماء اور صلحاء پیدا ہوئے ہیں۔ اس لئے اقبال نے اپنے ملا زادہ کو لولابی قرار دیا ہے۔ امام العصر راس المحدثین حضرت مولانا علامہ سید انور شاہ کشمیری بھی اسی وادی کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں پیدا ہوئے تھے اور میری رائے میں لولاب کے لئے یہی فخر کافی ہے کہ شاہ صاحب جیسا یگانہ روزگار وہاں پیدا ہوا تھا۔ اگرچہ مرحوم ہر فن میں مہارت رکھتے تھے۔ لیکن حدیث اور فقہ میں بلاشبہ تمام دنیا ئے اسلام میں کوئی شخص ان کا ہمسر نہیں تھا”۔ 

سید محمد فاروق بخاری ریسرچ آفیسر لال منڈی اپنے مضمون "علامہ انور شاہ کشمیری اور ڈاکٹر اقبال” کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں: "ارمغان حجاز کے اردو حصہ میں علامہ اقبال نے پوری ایک نظم "ضیغم لولاب” کے عنوان کے تحت لکھی ہے جو پوری کی پوری علامہ انور شاہ لولابی کشمیری کی شان میں ہےمگر علامہ اقبال کے بیشتر تذکرہ نگاروں نے اسے چھوا تک نہیں ہے۔ "اقبال کامل” کے مصنف مولانا عبد السلام ندوی صاحب تذکرہ ارمغان حجاز کے اس حصہ پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ الفاظ لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں” رباعیات و قطعات کے علاوہ آخر میں چند اردو نظمیں بھی ہیں جن میں بعض کشمیر اور اہل کشمیر کے متعلق ہیں”، حیرانی ہے کہ علامہ انور شاہ صاحب جیسے آفتاب علم و فضل کا نام نامی یہاں بھی نہ لیا گیا”۔ 

مولانا انظر شاہ کشمیری (شیخ الحدیث دارالعلوم و دارالعلوم وقف دیوبند) اپنی کتاب "نقش دوام” سوانح حضرت علامہ انور شاہ کشمیری میں لکھتے ہیں: مہاراجہ کشمیر نے ایک بار کشمیرکے مسائل سے نمٹنے کے لئے کشمیر کمیٹی بنائی اور اس کمیٹی کا صدر ایک قادیانی کو قرار دیا گیا، علامہ اقبال بھی اس کمیٹی کے رکن تھے۔ علامہ کشمیری اس صورت حال سے مضطرب ہوگئے، مذکورۃ الصدر خطرات و اندیشوں کے تحت آپ نے اس تقرر کے خلاف اول تو خود مہاراجہ کشمیر اور کشمیر کے بعض ذمہ دار اشخاص کو احتجاجی خطوط لکھے اور ساتھ ہی مجلس احرار کو ہمہ گیر احتجاج پر آمادہ و تیار کیا۔ڈاکٹر اقبال جن سے آپ کے تعلقات پہلے سے تھے وہ اب تک قادیانیت کے مضر پہلوؤں سے تقریبا ناواقف تھے۔ اسی زمانہ میں علامہ کشمیری نے ڈاکٹر موصوف کو طویل خط لکھ کر فتنہ قادیانیت کی زہر چکانیوں سے مطلع کیا۔ ڈاکٹر اقبال نے بعد میں کشمیر کمیٹی سے استعفا بھی دے دیا بلکہ وہ فتنہ قادیانیت کے استیصال کے محاذ پر ایک پرجوش داعی ہوگئے”۔

مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ فرماتے ہیں: "یعنی وہ (ڈاکٹر اقبال) علامہ انور شاہ کشمیری اور سید سلیمان ندوی سے علمی استفادہ کرتے رہتے تھے”۔

علامہ انور شاہ کشمیری اور ڈاکٹر اقبال کے درمیان تعلقات اور خصوصا علمی بحث و مباحثہ اور خط و کتابت کے طویل سلسلہ سے یہ بات سمجھنا آسان اور سہل ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر اقبال کے نزدیک علامہ انور شاہ کشمیری کی علمی حیثیت کیا درجہ رکھتی تھی۔ اسلامی تعلیمات اور دینی معاملات میں ڈاکٹر اقبال علامہ انور شاہ کشمیری کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر اقبال کی نظر میں اسلام کی پانچ سو سالہ تاریخ علامہ انور شاہ کشمیری کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ ڈاکٹر اقبال کے بقول فقہ جدید کا جو کام میں علامہ انور شاہ کشمیری سے لینا چاہتا ہوں، اسے عالَم اسلام میں اور کوئی انجام نہیں دے سکتا ہے۔ 

علامہ انور شاہ کشمیری کی وفات کی خبر نے ڈاکٹر اقبال کو بہت زیادہ رنجیدہ کردیا تھا۔ آپ بے حد مغموم ہوئے، اپنے اہتمام سے تعزیتی جلسہ کا انعقاد کرایا اور مجلس عام میں علامہ انور شاہ کشمیری کی علمی شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: "اسلام کی ادھر کی پانچ سو سالہ تاریخ شاہ صاحب کا نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے”۔  علامہ انور شاہ کشمیری اور ڈاکٹر علامہ اقبال کے تعلقات خالص علمی تھے۔ ان کے درمیان خطوط کا سلسلہ علمی موشگافیوں کے لئے ہوتا تھا۔ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر اقبال کے خطوط آٹھ آٹھ صفحات پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔ علامہ انور شاہ کشمیری اور ڈاکٹر اقبال کے خطوط کا باہمی تبادلہ اکثر و بیشتر مولانا سعید اکبرآبادی اور جناب عبد اللہ چغتائی انجام دیا کرتے تھے۔ کاش کوئی ایسی سبیل پیدا ہوتی کہ ان خطوط کو منظر عام پر لایا جاتا تاکہ علم کے متوالوں کے لئے اپنے دور کے دو بہترین اور لائق و فائق شخصیات کے علمی مباحثے سے استفادہ آسان ہوجاتا۔

 

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے