سید سلیمان ندوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

علامہ سید سلیمان ندوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

 علامہ سید سلیمان ندوی عالم اسلام کی ان چنندہ شخصیتوں میں سے ہیں جو بیک وقت مختلف علوم و فنون پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ کتابت و خطابت میں آپ بے مثال ہیں۔ تفسیر و حدیث میں آپ کے نقوش آج بھی تابندہ ہیں۔ علم تاریخ کے خشک صحرا کو آپ کے قلم کی عرق ریزی اور تحقیق و تخریج نے ایسے نخلستان میں تبدیل کیا جہاں تاریخ کے متلاشی تشنہ لبوں کی مکمل سیرابی کیلئے چشمے بہتے ہیں۔ عربی زبان وادب میں اہل زبان کیلئے مشعل راہ رہے ہیں۔ اردو ادب میں لکھے گئے مضامین و مقالات سے میدان ادب کے آزمودہ شہسوار خوشہ چینی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آزادی و حریت کے ایسے راہنما ہیں جن کی جرات کو زمانہ سلام کرتا ہے۔ بیعت و سلوک کے وہ راہی ہیں جنہوں نے تادم حیات اپنے شیخ کامل حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے متعین کردہ اصولوں پر قائم رہ کر زندگی گزاری ہے۔علامہ سید سلیمان ندوی فہم و فراست اور ادراک و بصیرت کے اس اعلی مقام پر فائز تھے جس کے خوشہ چینوں میں علامہ اقبال جیسا مفکر وقت بھی شامل ہے۔ 

syed sulaiman nadvi, syed sulaiman nadvi ki tasaneef, syed sulaiman nadvi ki seeratunnabi
syed Sulaiman Nadvi

ولادت با سعادت

علامہ سید سلیمان ندوی کی ولادت با سعادت 22 نومبر 1884 کو بہار کے مردم خیز علاقہ پٹنہ سے کچھ میل دوری پر ویسنہ نامی گاؤں میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام سید ابوالحسن ہے، آپ کے والد محترم نہایت متقی و پرہیز شخصیت کے مالک تھے۔ سید سلیمان ندوی کا خاندان پورے علاقہ میں دینی علوم اور زہد و ورع میں ایک زمانے سے ممتاز چلا آرہا تھا۔ اطراف و اکناف کے لوگ علمی اور روحانی شفایابی کے لئے آپ کے والد محترم کی خدمت میں حاضری دینے کو باعث سعادت سمجھتے تھے۔آپ ددھیال کی جانب سے حسینی اور ننھیال کی جانب سے زیدی تھے۔ آپ کے خاندان میں دینی علوم کے علاوہ علم طب کا بہت زیادہ رجحان تھا۔ آپ کے والد محترم اور دادا محترم ہر دو اپنے ادوار کے ممتاز حکماء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں بیعت و سلوک کی نسبت نے اس خانوادہ کی شرافت و نجابت میں چار چاند لگا دیئے تھے۔ خاندانی علم و عمل کے اس سنگم کے مجموعہ کو ذات باری نے علامہ سید سلیمان ندوی کی شکل میں عالم اسلام کیلئے قیمتی تحفہ بنا کر پیش کردیا تھا۔ 

ابتدائی تعلیم

 علامہ سید سلیمان ندوی نے تعلیم کا باضابطہ آغاز گاؤں کے مکتب سے خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے کیا۔ بعد ازاں میزان و منشعب وغیرہ اپنے برادر اکبر مولانا ابو حبیب سے پڑھی۔ بڑے بھائی سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے اسی اثناء میں اپنے والد محترم کے پاس اسلام پور تشریف لائے، یہاں کچھ دنوں تک تعلیمی سلسلہ جاری رہا لیکن علم کی تشنگی اور آرزو نے اسلام پور سے پٹنہ خانقاہ مجیبیہ میں مولانا محی الدین (سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ) کے در پر پہنچا دیا۔ یہاں آپ نے مکمل ایک سال رہ کر عربی علوم میں مہارت حاصل کی۔ یہاں رہتے ہوئے آپ میں شعری ذوق بھی پروان چڑھا، اور آپ نے بعد کے زمانے میں وقتاً فوقتاً اس ذوق کا اظہار بھی فرمایا ہے۔علامہ  سید سلیمان ندوی کو زمانہ طفولیت سے ہی وقت کی نابغہ روزگار ہستیوں سے مستفید ہونے کا موقع ملا تھا، ان بلند پایہ شخصیات کی علمی و روحانی توجہ نے اکسیر کا کام کیا۔

ندوۃ العلماء کا سفر

 1901 میں علامہ سید سلیمان ندوی بغرض حصول تعلیم ندوہ تشریف لائے، یہاں آپ نے زمانہ طالب علمی میں متانت و سنجیدگی، مہر و محبت، تہذیب و شائستگی اور اخلاق و مروت کے وہ نمونے پیش کئے ہیں کہ سات سالہ طالب علمی کے زمانے میں کبھی کسی کو حرف شکایت کا موقع نہیں ملا، البتہ آپ کی ذہنی سطح اور علمی گہرائی و گیرائی نے ہر کسی کا آپ کو محبوب بنا دیا۔ ادبی ذوق آہستہ آہستہ مزید پروان چڑھتا گیا اور زمانہ طالب علمی میں ہی آپ کے لکھے ہوئے مضامین کو علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ۔ اردو کے علاوہ عربی مضامین بھی مصری اخبارات کی زینت بننے لگے تھے۔ ندوۃ العلماء کی علمی و ادبی فضا نے علامہ سید سلیمان ندوی کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور انہیں صیقل کرکے عوام کے سامنے پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔اساتذہ کرام کی توجہ نےعلامہ  سید سلیمان ندوی کو تراش کر ایسے جوہر میں تبدیل کردیا جس سے آج تک دنیا فیض حاصل کررہی ہے۔

علامہ سید سلیمان ندوی کے مضامین

 علامہ سید سلیمان ندوی کی ذات والا صفات کے قلمی جوہر کو بیان کرنے کیلئے الفاظ کا دامن تنگ ہے۔ جس شخصیت نے ساری عمر قلم کے سایہ تلے گزار دی، جس کے لکھے ہوئے مضامین کو سند کی حیثیت حاصل ہے۔ جن کے الفاظ کو لغات اردو میں معیار ادب قرار دیا جاتا ہے، جس کی تحریروں پر مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت عش عش کر اٹھے، جس کے خیام پر لکھے گئے تحقیقی مقالہ پر شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ اب کوئی اس باب میں لکھ کر مزید اضافہ نہیں کرسکتا ہے۔ جس ذات گرامی نے کم و بیش چالیس سالوں تک دارا المصنفین اعظم گڑھ کو علم و تحقیق کے باب میں بام عروج تک پہنچایا، جس نے "معارف” کو علوم و فنون کا معارف بنایا، جس نے سیرہ النبی جیسی  جامع کتاب کی تکمیل فرمائی۔ جس نے ” سیرت عائشہ” لکھ کر امت مسلمہ پر احسان عظیم کیا ہے۔ ایسی شخصیت کے قلمی جوہر کے متعلق کچھ لکھنا اور بیان کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی کے تصانیف کی جامعیت جس طرح زمانہ ماضی میں تھی آج بھی ان کتابوں کی اہمیت و افادیت برقرار ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی  کے قلمی و علمی سفر کی مختصر روداد یہ ہے: 

علامہ سید سلیمان ندوی کا پہلا مضمون بعنوان ” وقت” مخزن لاہور میں 1903 میں شائع ہوا، یہ آپ کی پہلی کاوش تھی جو مدرسہ کے احاطہ سے باہر آئی اور لوگوں کو مستقبل میں ایک بہترین قلم کار، مفکر اور دانشور  کی آہٹ سنائی دینے لگی۔ آپ کا دوسرا مضمون” علم اور اسلام” کے عنوان سے علی گڑھ کے ماہانہ مجلہ میں شائع ہوا۔ ان دو مؤقر اور معتبر رسالوں میں علامہ سید سلیمان ندوی کے مضمون کی اشاعت کے بعد، مختلف علمی حلقوں کی جانب سے آپ کو پذیرائی ملی۔ بعد ازاں ملک کے معتبر مجلوں اور اخبارات میں آپ کے قیمتی مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا جو اخیر عمر تک جاری رہا۔ اسی زمانہ میں حالی جیسے صاحب قلم نے آپ کی تحریر کیلئے توصیفی نوٹ لکھے ہیں۔ آپ کے بعض بیش قیمتی مضامین و مقالات نظر ثانی کے بعد کتاب کی شکل میں آج بھی امت مسلمہ کیلئے علمی خزینہ کی حیثیت سے موجود ہے۔ 

مولانا محمد علی مونگیری کا اعتماد

سید سلیمان ندوی کے طالب علمی کا زمانہ، وہ خوشگوار دور تھا، جس میں ندوہ ہر چہار جانب سے اہل علم و فضل کی آماجگاہ بنا ہوا تھا، اور اس قافلہ کے روح رواں بانی ندوہ حضرت مولانا احمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ(مولانا محمد علی مونگیری کی حیات و خدمات کے متعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں)  کی ذات بابرکت تھی۔ ایک جانب مولانا محمد قاسم نانوتوی  کا لگایا ہوا پودا دارالعلوم دیوبند سر سبز و شاداب درخت کی شکل میں امت مسلمہ کی قیادت کیلئے جانباز و سرخیل فراہم کررہا تھا تو دوسری جانب ندوہ العلماء نے اس میں چار چاند لگانے کیلئے افکار و نظریات کے ماہرین کی جماعت تیار کی۔

مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ اس وقت ندوہ کے معتمد تھے اور شاہ سلیمان پھلواری اس کے رکن تھے۔ آپ دونوں حضرات علامہ سید سلیمان ندوی کی ذکاوت و ذہانت سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے اس قیمتی نگینہ کو وقت سے پہلے ہی پہچان لیا تھا۔ حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ اس وقفہ میں جب بھی ندوہ تشریف لاتے علامہ سید سلیمان ندوی حصولِ فیض کیلئے پابندی سے حاضر خدمت ہوا کرتے تھے۔ 1903 میں نواب محسن الملک ندوہ تشریف لائے اور یہاں آپ نے طلبہ کا امتحان لیا۔ اس امتحان میں علامہ سید سلیمان ندوی کی پہلی پوزیشن تھی۔ آپ نے نواب محسن الملک کی تعریف میں ایک قصیدہ بھی پڑھا جسے سن کر شاہ سلیمان پھلواری نے فرمایا کہ ان شاءاللہ سرزمین بہار میں ہمیشہ ایک سلیمان دین اسلام کی خدمت کیلئے موجود رہے گا۔ 

مولانا شبلی نعمانی کے زیر سایہ

 1905 میں علامہ شبلی نعمانی حیدرآباد چھوڑ کر ندوہ معتمد تعلیم کی حیثیت سے تشریف لائے۔ علامہ شبلی نعمانی کے علم و فضل کا غلغلہ پورے ملک میں تھا۔ ان کی انشاء پردازی کے جوہر علی گڑھ یونیورسٹی کے ایام سے ہی عوام و خواص کے اذہان میں پیوست ہوگئے تھے۔ آپ کی حیثیت ایک عظیم مفکر کی تھی اور آپ نے اپنے زمانہ میں مسلمان اور اسلام کے لئے بیش قیمتی منصوبے تیار کئے تھے۔ ایسی شخصیت کو ندوہ میں لایا گیا تو طلبہ نے خوشی میں مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا۔ آپ کی تعریف و توصیف اور علم و ادب کے کارنامے بیان کئے گئے۔ نثر و نظم دونوں کے ذریعہ آپ کو تحفہ پیش کیا گیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنی خوشی کا اظہار فارسی زبان میں قصیدہ کے ذریعہ کیا۔  یہ قصیدہ حیات شبلی میں موجود ہے۔ 

علامہ شبلی نعمانی نے چند دنوں میں علامہ سید سلیمان ندوی کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور پھر ہمیشہ کیلئے اپنی سر پرستی میں رکھ لیا۔ پھر یہ ساتھ ایسا ہوا کہ دنیا کو شبلی کے افکار و خیالات سے جتنا علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنی تحریروں سے واقف کرایا ہے وہ کسی اور کے نصیبہ کا حصہ نہیں بن سکا۔ علامہ شبلی نعمانی کی معیت میں علامہ سید سلیمان ندوی کو اردو فارسی کے علاوہ عربی زبان و ادب کے لٹریچر اور اخبارات وافر مقدار میں مہیا ہونے لگے۔ اس فراوانی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے آپ نے جدید عربی میں مہارت تامہ حاصل کی اور آپ کے عربی زبان میں لکھے گئے تحقیقی مضامین علامہ شبلی نعمانی کی زیر تربیت مختلف رسائل میں شائع ہونے لگے تھے۔ 

1907 میں فارغ التحصیل طلبہ کی دستار بندی کیلئے جلسہ منعقد ہوا۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے اردو زبان میں تقریر پیش کی۔ اسی درمیان سامعین میں سے کسی نے کہا کہ اگر عربی زبان میں تقریر کریں تو ہم سمجھیں گے۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے فوراً عربی زبان میں تقریر شروع کی اور یکلخت عوام کے حواس پر چھاگئے۔ تقریر مکمل ہونے پر علامہ شبلی نعمانی نے کہا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ پہلے سے تیار شدہ تقریر تھی۔ اگر کوئی اب بھی امتحان لینا چاہتا ہے تو اسے اجازت ہے۔ سامعین میں موجود خواجہ غلام الثقلین نے خود سے ایک موضوع منتخب کرکے تقریر کیلئے کہا۔ ندوہ کے عظیم سپوت اور علم و فضل کے پیکر علامہ سید سلیمان ندوی کی صلاحیتوں کا لوہا اس وقت ہر کسی نے قبول کیا۔ آپ نے برملا تقریر کی اور خوب کی۔ فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر علامہ شبلی نعمانی نے اپنا عمامہ اتار کر اپنے ہونہار طالب علم کے سر پر باندھ دیا۔ 

علامہ سید سلیمان ندوی کی ندوہ سے وابستگی

 1907 میں ندوہ سے فراغت کے بعد علامہ شبلی نعمانی نے علامہ سید سلیمان ندوی کو مجلہ "الندوہ” کا نائب رئیس التحریر منتخب فرمایا اور یہیں سے آپ نے عملی زندگی کی شروعات کی۔ اس زمانہ میں آپ نے بے شمار تحقیقی مضامین لکھے، انہیں ایام میں آپ نے "خواتین اسلام کی شجاعت” کے موضوع پر مقالہ لکھا جو اب کتابی شکل میں موجود ہے۔علامہ سید سلیمان ندوی کے مضامین تقریبا ہر فن پر دستیاب ہیں۔ اللہ نے آپ کو عجیب ملکہ عطا فرمایا تھا، جس موضوع پر قلم اٹھاتے اس کا حق ادا کردیا کرتے تھے۔ 

1908 میں علامہ سید سلیمان ندوی کی مصروفیت میں اضافہ ہوگیا اور آپ باضابطہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔ یہاں آپ نے درس و تدریس کے ذریعہ طلباء کی علمی تشنگی کو سیرابی عطا کی۔ خصوصاً عربی زبان و ادب کی کتابیں آپ سے وابستہ تھی، نوجوانی کا عالم تھا اور عربی زبان میں مہارت، طلبہ میں زبان و ادب کے تئیں ایک نیا جوش پیدا کیا اور ایسا ماحول قائم کیا جو عرصہ دراز تک باقی رہا۔ لیکن ان ایام میں بھی آپ کے قلم میں خشکی نہیں آئی بلکہ روز بروز اس کی چاشنی اور رفتار بڑھتی جارہی تھی۔  درس و تدریس کی مشغولیت کے باوجود علامہ سید سلیمان ندوی نے مضامین و مقالات کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔

1910 میں عربی زبان کیلئے لغات جدیدہ کی تدوین کا کام آپ کے سپرد کیا گیا۔ تمام امور کی انجام دہی کے ساتھ آپ اس کام کو بھی انجام دیتے رہے اور بالاخر دو سال کی عرق ریزی کے بعد بہترین لغات طلباء کیلئے تیار ہوکر منظر عام پر آگئی۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے کام کی بڑھوتری کو مجبوری نہیں بلکہ اسے نعمت خداوندی سمجھ کر ہاتھوں ہاتھ لیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے کام میں مزید نکھار پیدا ہوتا چلا گیا۔

1910 میں علامہ شبلی نعمانی نے سیرہ النبی کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے لٹریری اسسٹنٹ سید سلیمان ندوی مقرر کئے گئے۔ بعد کے زمانہ میں علامہ شبلی نعمانی کی وفات کے بعد آپ نے اس کار خیر کی تکمیل فرمائی۔  اردو زبان میں سیرت رسول اکرم ﷺ پر بے شمار کتابیں تصنیف کی گئیں ہیں لیکن جو جامعیت اور ادب کی چاشنی اس کتاب میں موجود ہے اس سے بیشتر کتابیں عاری ہیں۔اس کتاب کی اہمیت و افادیت میں جس طرح علامہ شبلی نعمانی کی محنت اور تحقیق و تدقیق کو دخل ہے علامہ سید سلیمان ندوی کو بھی اس کا سہرا جاتا ہے۔

الہلال شمارہ میں شمولیت

 1912 میں جب عالمی طور سے مسلمانوں پر ہر چہار جانب سے یلغار کی کوشش جاری تھی اور ملک ہندوستان میں آزادی کے ولولے سینوں میں پھوٹ رہے تھے، ایسے وقت میں مولانا ابوالکلام آزاد نے "الہلال” شمارہ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ علامہ شبلی نعمانی خود بھی آزادی کے پرزور حامی تھے اور آپ کا اثر آپ کے شاگرد پر ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ 1913 میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے "الہلال” میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اور یہاں سے آپ کی زندگی کے نئے باب کا آغاز ہوا۔ اس زمانے میں حالات بہت زیادہ موافق نہیں تھے اور ہمیشہ آزادی کے متوالوں اور انگریز کے خلاف لکھنے والوں کی گرفتاری کا خوف رہتا تھا۔ اس لئے "الہلال” میں مضامین صاحب مضمون کے نام کے بغیر شائع ہوتے تھے۔ علامہ سید سلیمان ندوی کے مضامین کا عالم یہ تھا کہ قارئین فرق نہیں کرپاتے تھے کہ یہ مضمون مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے یا پھر علامہ سید سلیمان ندوی کا مضمون ہے۔

علامہ سید سلیمان ندوی دکن کالج پونہ میں

 1913 میں علامہ سید سلیمان ندوی نے  استاد محترم علامہ شبلی نعمانی کے  ایماءپر ممبئی یونیورسٹی کی شاخ دکن کالج پونہ میں شمولیت اختیار کی۔ یہاں آپ کو کھلا ہوا آسمان  نصیب ہوا، جس میں شاہین و عقاب کی اصل پرواز کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ کچھ دنوں میں آپ کا شمار ممتاز علماء کرام کی صف میں ہونے لگا۔ طلاقت لسانی سے ایسے دلآویز جواہر پارے موتیوں کی شکل میں برسنے لگے کہاآپ ہر محفل اور ہر جلسہ کی شان  بن گئے۔ اسی زمانہ میں انجمن ترقی اردو کا اجلاس پونہ میں منعقد ہوا، جس کی صدارت آپ کے ذمہ تھی۔ آپ نے جو علمی اور تحقیقی خطبہ صدارت پیش کیا تھا وہ آج تک اردو زبان و ادب کے باب کا زریں تحفہ ہے۔علامہ سید سلیمان ندوی کے مضمون پر جس طرح قارئین فریفتہ تھے اسی طرح آپ کی طلاقت لسانی کے جوہر کے ثنا خواں تھے۔ 

علامہ شبلی نعمانی کی رحلت

 علامہ سید سلیمان ندوی کو پونہ گئے تقریباً ڈیڑھ دو سال ہی ہوئے تھے کہ آپ کے مشفق و مربی علامہ شبلی نعمانی کی طبیعت میں گراوٹ شروع ہوگئی۔ روز افزوں بڑھتی ہوئی کمزوری نے آنے والے حالات سے آگاہ کردیا تھا۔ آپ نے تار بھیج کر علامہ سید سلیمان ندوی صاحب کو پونہ سے بلا لیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی صاحب کے پہنچنے کے کچھ دنوں بعد علم و فضل کا ایک روشن ستارہ ہمیشہ ہمیش کیلئے 1914 میں غروب ہوگیا۔ استاد محترم کی رحلت کے بعد آپ نے ان کے ادھورے چھوڑے ہوئے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ جن میں دو کام سب سے اہم تھے۔ سیرۃالنبی کی تکمیل اور دارا المصنفین کا قیام۔ 

دارا المصنفین کا قیام

علامہ شبلی نعمانی نے اپنی حیات طیبہ میں ہی اس ادارہ کا خواب دیکھا تھا۔ آپ اسے قائم کرکے ہندوستان میں تحقیق و تخریج کے ایک نئے باب کا اضافہ کرنا چاہتے تھے، لیکن عمر نے وفا نہ کی اور آپ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے استاذ محترم کے دیرینہ خواب کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور اس کام کی تکمیل آپ کے ہاتھوں منصہ شہود پر آئی۔ 

چند مخیر حضرات کے تعاون سے 1915 میں علامہ سید سلیمان ندوی نے اعظم گڑھ میں دارا المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ استاد کی خواہش کا اس درجہ اہتمام کے آپ نے بالکلیہ دکن کالج کی نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور دارا المصنفین کی ترقی و کامیابی کیلئے ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ دارا المصنفین سے سب سے پہلا علمی کارنامہ جو کتاب کی شکل میں عوام الناس تک پہنچا وہ علامہ سید سلیمان ندوی صاحب کی کتاب ” ارض القرآن” کی پہلی جلد تھی۔ اس سے عوام وخواص پر  دارا المصنفین کے منہج و مقاصد آشکارا ہوگئے اور دیگر مصنفین اور تحقیق و تخریج کے متلاشی اس جانب رجوع کرنے لگے۔علامہ سید سلیمان ندوی نے دارالمصنفین کی ہمہ جہت ترقی کے لئے خود کو مکمل طور پر وقف کردیا تھا۔دارالمصنفین کے علمی و ادبی معیار کو بلند سے بلند تر بنانے کے لئے عرق ریزی سے مضامین اور کتابوں کی تحقیق کیا کرتے تھے۔ 

رسالہ "معارف” کا اجراء

 دارا المصنفین کے قیام کا مقصد محض کتابوں کی اشاعت تک محدود نہیں تھا، بلکہ حالات حاضرہ پر واقع ہونے والے اثرات سے عوام کو واقف کرانا اور انہیں دیگر علمی مسائل میں تشفی بخش معلومات فراہم کرنا بھی تھا۔ چنانچہ اس کام کی انجام دہی کیلئے 1916 میں رسالہ "معارف” کا اجراء عمل میں آیا۔ کسی بھی ادارہ کا رسالہ اس ادارہ کے ترجمان کی حیثیت رکھتا ہے، اور ترجمان کا معیار جتنا بلند ہوگا ادارہ بھی اتنا بلند سمجھا جائے گا۔ علامہ سید سلیمان ندوی  نے رسالہ”معارف” اور دارا المصنفین کی ترقی کیلئے ہر ممکن کوشش کی اور محض دو سال کے عرصہ میں اس بام عروج تک پہنچا دیا کہ جب بڑودہ میں مذاہبِ عالم کے موازنہ پر ادارہ قائم کیا گیا تو مذہب اسلام کے متعلق معلومات کیلئے دارا المصنفین کو مرجع قرار دیا گیا۔ 

1917 میں علامہ سید سلیمان ندوی کے مضامین کا مجموعہ ” حیات امام مالک” بشکل کتاب منظر عام پر آیا۔ آپ کو امام مالک سے عجیب انسیت تھی۔ آپ علم حدیث میں مؤطا امام مالک کی جانب بہت زیادہ رجوع فرمایا کرتے تھے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ حنفی المذہب ہونے کے باوجود علماء ہند نے خدمت حدیث کی نیت سے مؤطا امام مالک پر بہت کام کیا ہے۔ اس میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کاوش سب سے زیادہ نمایاں ہیں، آپ نے مؤطا امام مالک کی شرح اوجز المسالک سترہ جلدوں میں ترتیب دی ہے جو علم حدیث کے باب میں عظیم خدمت ہے۔ 

سیرۃ النبی کی اشاعت

 علامہ شبلی نعمانی کا یہ دیرینہ خواب تھا۔ انہوں نے بوقت مرگ اپنے شاگرد علامہ سید سلیمان ندوی سے اس بات کی خصوصی وصیت فرمائی تھی کہ اسے ہر حال میں شائع کرنا ہے۔ دو جلدوں کے مسودے تیار ہوچکے تھے لیکن حالت حیات میں اشاعت کی فرصت نہیں ملی۔ 

1918 میں سید سلیمان ندوی نے مکمل تحقیق و تخریج کے بعد اس کتاب کو شائع فرمایا۔ یہ کتاب ہر اعتبار سے سیرت النبی پر مشتمل مواد کا بیش بہا خزینہ ہے۔ اس کی افادیت اس کے مصنفین کے اخلاص و للہیت سے آج تک برقرار ہے۔ اردو زبان میں لکھی گئی یہ کتاب اپنے آپ میں کارنامہ ہے۔ 

بعد کے زمانے میں علامہ سید سلیمان ندوی مصروفیات کے باوجود ہمیشہ اس کام کی تکمیل کیلئے کوشاں رہا کرتے تھے، آپ کی مخلصانہ کاوش بارگاہ ایزدی میں قبول ہوئی اور آپ نے سات جلدوں میں سیرت کے موضوع پر قیمتی تحفہ امت مسلمہ کے سامنے پیش فرمایا۔ "سیرۃ النبی” سید سلیمان ندوی اور علامہ شبلی نعمانی کی مشترکہ جد و جہد کا نتیجہ ہے۔ البتہ "سیرۃ النبی” سید سلیمان ندوی کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچی۔

خلافت کمیٹی کی تشکیل

 1919 میں سلطنت عثمانیہ اپنے آخری دور میں پہنچ چکی تھی۔ بقا کی امیدیں دم توڑتی ہوئی نظر آرہی تھی، ایسے سنگین حالات میں ہندوستان کے چند سرفروشان اسلام نے ممبئی میں خلافت کمیٹی کی بنیاد رکھی۔علامہ  سید سلیمان ندوی صاحب بھی اس قافلہ کے سالاروں میں سے تھے۔ اب آپ کا ذہن مکمل طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا، لیکن کمال انصاف یہ ہے کہ آپ نے ہر دو امور کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ 1920 میں جب حالات کی سنگینی مزید بڑھ گئی تو ہندوستان سے ایک وفد خلافت کمیٹی کی جانب سے حکومت برطانیہ سے بات چیت کیلئے برطانیہ روانہ کیا گیا، اس وفد میں علامہ سید سلیمان ندوی صاحب کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا تھا۔ برطانیہ سے واپسی کے بعد 1920 میں جب ترک موالات کی تحریک کانگریس اور خلافت کمیٹی کی جانب سے مشترکہ طور پر شروع کی گئی تو علامہ سید سلیمان ندوی صاحب نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جابجا جلسوں میں عوام کو اس میں شمولیت کیلئے ترغیب دیں۔ انہیں ایام میں آپ نے میرٹھ  اور بہار میں منعقد ہونے والے خلافت کانفرنس کی صدارت فرمائی۔ 

علامہ سید سلیمان ندوی کی تصانیف

برطانوی سامراج کے آخری ایام میں انگریزوں نے ہندوستانیوں کو مذہب کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کرنے کی حکمت عملی اپنائی اور اس کام کیلئے چند ضمیر فروشوں کو آلہ کار بنایا۔ فرنگیوں کی تخم ریزی ہندوستانیوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب نظر آنے لگی تھی۔ ایسے وقت میں علامہ سید سلیمان ندوی صاحب نے ہندوستان کے ہندوؤں کو مذہب اسلام کے مبدا عالم عرب کے تعلقات اور ان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے مضامین لکھیں۔ تقاریریں کیں۔ عرب و ہند کے باہمی تعلقات کو تاریخی طور پر ثابت کیا اور اس سلسلہ میں آپ نے ایک مکمل کتاب بنام” عرب و ہند کے تعلقات” کو ترتیب دے کر پھیلائے گئے جھوٹ پر قدغن لگایا۔ علامہ سید سلیمان ندوی کی تصانیف تحقیق کے اعلی مقام پر ہوتی تھی۔ سید سلیمان ندوی کی "سیرت عائشہ”اپنے آپ میں بے مثال کارنامہ ہے۔ سید سلیمان ندوی کی "خطبات مدراس” جو آپ کی آٹھ بیش قیمت تقاریر کا مجموعہ ہے۔ خطبات مدراس آج بھی زبان و ادب اور علم و فن کے اعلی معیار پر ہے۔سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو اس خوش اسلوبی سے "خطبات مدراس ” میں بیان کیا گیا ہے جو سیرت کے شائقین قاری کے لئے ایک انمول تحفہ ہے۔

اس پوری عملی اور مصروف ترین زندگی میں جہاں علامہ سید سلیمان ندوی نے حجاز کے بیشتر مقامات کا سفر کیا، متحدہ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں جاکر آزادی کی تحریک چلائی، علمی ذوق و شوق کو معارف کے ذریعہ برقرار رکھا اور خصوصاً ندوۃ العلماء کی ذمہ داری اور دارا المصنفین کی سرپرستی میں کبھی کمی و کوتاہی نہیں ہونے دی۔ 

بیعت و سلوک 

1940 کے ایام میں جب عالمی طور پر آپ متبحر عالم دین کی حیثیت سے شناخت بنا چکے تھے۔ آپ کے علمی کارناموں کو سند کی حیثیت حاصل تھی۔ عمر کے اس دور میں آپ بیعت و سلوک کی جانب متوجہ ہوئے۔ آپ کے زہد و تقویٰ میں کوئی کمی نہیں تھی۔ آپ کے تواضع و انکساری کو آپ کے رفقاء ہمیشہ محسوس کرتے تھے۔ پیر و مرشد کی تلاش نے تھانہ بھون میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے در اقدس پر پہنچا دیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبد الماجد دریابادی کے ہمراہ دیوبند تشریف لائے، یہاں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی سے مدعا بیان کیا۔ حضرت مدنی دونوں حضرات کو اپنے ہمراہ تھانہ بھون لے گئے جہاں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (  حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی حیات و خدمات کے متعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں ) کی منشا کے مطابق حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے خانقاہی نظام کو مرتب فرمایا تھا۔ یہاں حضرت حکیم الامت کے دست مبارک پر بیعت کیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی عبادت و ریاضت میں زہد و تقویٰ کے اس عالی مقام پر فائز تھے کہ آپ کو مزید ریاضت کی حاجت نہیں تھی۔ چند دنوں بعد آپ کے مرشد حضرت تھانوی نے آپ کو خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا، اس کے بعد علامہ سید سلیمان ندوی  کی جوشیلی تقریریں وعظ و نصیحت سے بدل گئی۔ آپ نے 1943 میں بعنوان” رجوع و اعتراف” معارف میں ایک تفصیلی مضمون تحریر کیا، جس میں آپ نے بہت سی ایسی باتیں جن میں جمہور سے قدرے علمی اختلاف رہا تھا یا آپ کی اپنی آراء تھیں ان سے برملا رجوع فرمایا۔ علامہ سید سلیمان ندوی کے اس قدم سے یہ بات بھی اجاگر ہوتی ہے کہ انسان چاہے جتنا بھی بڑا ہو لیکن اسےایک مصلح اور مربی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے اور فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنا دست کسی کے دست پر رکھ کر اس سے عہد و پیمان باندھے اور اس کے بتائے ہوئے طریقوں کو اختیار کرکے سنت نبوی پر عمل پیرا ہوا جائے۔

ندوۃ العلماء  میں قیام کا ارادہ

علامہ سید سلیمان ندوی تقریباً چالیس سالوں تک ندوہ کے معتمد تعلیمات رہے، اس دورانیہ میں آپ کو کبھی یکسوئی سے ندوہ میں قیام کا موقع نہیں ملا۔ البتہ آپ ہمیشہ ندوہ کے تئیں متفکر رہتے اور حتی الامکان ندوہ میں اساتذہ و طلبہ کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کرتے تھے۔ 1945 میں آپ کی طبیعت خراب ہوگئی، ڈاکٹروں نے آرام کا مشورہ دیا، انہیں ایام میں آپ نے باقاعدہ ندوہ میں رہنے کا ارادہ فرمایا، لیکن چند دنوں بعد 1946 میں آپ قاضی القضاہ کی حیثیت سے بھوپال تشریف لے گئے۔ 1947 میں آزادی کے بعد مزید دو سال تک وہاں قیام رہا، لیکن اس وقت تک بھوپال کے حالات یکسر تبدیل ہوچکے تھے۔ آپ نے 1949 میں بھوپال کو خیر باد کہہ دیا۔علامہ سید سلیمان ندوی کا ندوۃ العلماء میں قیام کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکا۔

ہجرت

 1950 میں علامہ سید سلیمان ندوی ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے گئے۔ وہاں آپ کا پرزور استقبال کیا گیا۔ کئی عہدوں پر فائز ہوئے اور کئی طرح کی علمی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ پاکستان کی مختلف علمی انجمنوں کے مشیر رہے، یونیورسٹی کے ممبر نامزد کئے گئے۔ غرضیکہ محض تین سال کی مدت میں آپ نے اس نوزائیدہ ملک کیلئے ایسی شاندار علمی خدمات انجام دی ہیں جن کے نقوش آج تک تابندہ ہیں اور جن کو مشعل راہ بنا کر بعد والے اب تک مستفید ہورہے ہیں۔ 

علامہ سید سلیمان ندوی کی وفات 

1952 میں علامہ سید سلیمان ندوی نے آخری بار ڈھاکہ سے کراچی ہوتے ہوئے ہندوستان میں قیام فرمایا۔ کچھ دنوں تک اپنے داماد کے گھر رہے۔ بعد ازاں ندوۃالعلماء میں قیام پذیر ہوئے۔ طلبہ کے درمیان وعظ و نصیحت کی مجلسیں سجائی گئی۔ اساتذہ کرام کو اپنے تجربات سے روشناس کرایا اور پھر دارا المصنفین کے عہدہ داروں سے رمضان المبارک میں واپسی کا ارادہ کرکے کراچی تشریف لے گئے۔ کسے معلوم تھا کہ یہ اس ذات گرامی سے آخری ملاقات ہے جو کم و بیش چالیس سال تک ندوہ کے معتمد تعلیمات رہے اور دارا المصنفین کے سرپرست رہے تھے۔ 

1953 میں نومبر کے مہینہ میں خدا کا یہ محبوب بندہ اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں ہمیشہ ہمیش کیلئے سجدہ ریز ہوگیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی کی وفات ایک شخص کی وفات اور جدائی نہیں تھی بلکہ علم و فضل اور زہد و تقوی کے اس عظیم فرد کی جدائی تھی جس نے اپنی زندگی کو امت مسلمہ کے لئے وقف کردیا تھا۔ جس نے تقریر و تحریر اور دیگر ذرائع سے ہمیشہ مسلم سماج کے مسائل پر کھل کر بات کی اور مسلمانوں کے مستقبل کے لئے قیمتی لائحہ عمل بنایا تھا۔

مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں

 

 

 

 

Related Posts

0 thoughts on “سید سلیمان ندوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

  1. ماشاء اللہ! بہت عمدہ، مرتب اور منظم انداز میں مضمون تحریر کیا گیا ہے، ہر ہر جز کو مختصر اور جامع انداز میں بیان کیا گیاہے،اللہ آپ کے قلم میں مزید اسباب کشش پیدا فرمائے، آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے