ماہ رمضان اور قرآن کریم
رمضان المبارک کا مہینہ بے شمار رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، اس مہینہ کے بے شمار فضائل و مناقب احادیث مبارکہ میں بیان کئے گئے ہیں اور خود رب ذو الجلال نے اپنے کلام پاک میں اس کی فضیلت کو بیان فرمایا ہے۔ اس مہینہ کی ایک بڑی خوبی اور خاصیت یہ ہے کہ عام مہینوں کے بالمقابل ذات صمدیت اپنے بندوں کی جانب خصوصی توجہ فرماتے ہیں اور انہیں انعامات و اکرامات کے ذریعہ دنیا و آخرت کی کامیابی کی جانب بلاتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں بندہ کے اعمال کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے جبکہ نفل کا ثواب فرض کے برابر کردیا جاتا ہے۔ ایسے مقدس مہینہ میں مسلمانوں کو چاہئے کہ اللہ تعالی کی رحمتوں کو سمیٹنے کے لئے ہمہ وقت یاد الہی میں مصروف رہے اور زیادہ سے زیادہ ذکر الہی میں اپنا وقت صرف کرے کیونکہ ہم نہیں جانتے ہیں کہ یہ مقدس مہینہ دوبارہ نصیب ہوگا یا نہیں۔ رمضان المبارک کے بے شمار فضائل ہیں لیکن اس مہینہ کو قرآن مجید سے جو تعلق ہے وہ کسی دوسرے مہینہ کو حاصل نہیں ہے۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں قرآن مجید کا نزول ہوا اور اسی مہینہ میں دیگر انبیا ءکرام کو کتابیں عطا کی گئی۔ رمضان المبارک کا مہینہ واحد ایسا مہینہ ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے اور جس میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ اسی مہینہ میں اللہ تعالی نے قرآن مجید کو نازل فرمایا ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ ماہ رمضان اور قرآن کریم کا تعلق جسم اور روح کاہے اگر رمضان جسم ہے تو قرآن مجید روح ہے۔
ماہ رمضان اور قرآن کریم کی تلاوت
اس بات کو سب جانتے ہیں کہ قرآن مجید کے ایک حرف پر اللہ
تعالی کی جانب سے دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں لیکن جب رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں اس کی تلاوت کی جائے گی تو یہ ثواب ستر گنا بڑھا کر بندے کو دیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے تراویح کا حکم اسی لئے دیا ہے تاکہ ہر مسلمان اس مہینہ میں پورا قرآن کم از کم ایک مرتبہ بحالت نماز پڑھے یا سنے، فقہاء اسلام نے تراویح میں مکمل قرآن کی سماعت یا تلاوت کو تراویح کے علاوہ الگ ایک سنت مؤکدہ قرار دیا ہے جبکہ پورے مہینہ تراویح کی نماز کو ادا کرنا الگ سنت مؤکدہ ہے۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ ہر رمضان المبارک میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن کا دور کیا کرتے تھے اور وفات سے پہلے والے سال میں آپ ﷺ نے دو دور کئے تھے۔ یہ دراصل سبق ہے امت کے لئے کہ جب نبی کریم ﷺ حضرت جبریل کے ساتھ قرآن مجید کا دور کررہے ہیں تو امتی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرے، کیونکہ یہ وہ کتاب ہدایت ہے جس کو پڑھنے سے بندہ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرتا ہے اور ایک طرح سے وہ اللہ تعالی سے ہم کلام ہوتا ہے۔ سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے کہ وہ عام دنوں کے بالمقابل رمضان المبارک کے مہینہ میں تلاوت کلام اللہ میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کیا کرتے تھے۔ امام ابوحنیفہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک دن میں دو قرآن مکمل کیا کرتے تھے اور ان کے علاوہ دیگر تمام سلف صالحین اور اکابرین کا تقریبا یہی معمول تھا۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے متعلق شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی نے لکھا ہے کہ صرف تراویح میں تین گھنٹے صرف کیا کرتے تھے، جبکہ دن کے بقیہ حصوں میں تلاوت کا الگ معمول تھا۔ قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے متعلق لکھا ہے: "یوں تو رمضان المبارک میں آپ کی ہر عبادت میں بڑھوتری ہوجاتی تھی، مگر تلاوت کلام اللہ کا شغل خصوصیت کے ساتھ اس درجہ بڑھتا تھا کہ مکان تک آنے جانے میں کوئی بات نہ فرماتے تھے۔ نمازوں میں اور نمازوں کے بعد تخمینا نصف قرآن مجید آپ کا یومیہ معمول قرار پایا تھا جس شب کی صبح کو پہلا روزہ ہوتا آپ حضار جلسہ سے فرمادیا کرتے تھے کہ آج سے کچہری برخواست، رمضان کو بھی آدمی ضائع کرے تو افسوس کی بات ہے”۔
لیکن افسوس کہ آج ہمارے پاس رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں بھی قرآن کی تلاوت کے لئے وقت نہیں ہے۔ مذہب اسلام جس نے اپنے ماننے والوں کو طرح طرح کے انعامات و اکرامات کے ذریعہ یاد الہی میں مصروف رکھنے کا کام کیا ہے آج اسی مذہب کے ماننے والوں کے پاس نماز روزہ اور دیگر عبادات کے لئے وقت نہیں ہے، فرائض تک میں غفلت ہوجاتی ہے نوافل تو کجا۔ یہ درست ہے کہ مسلمانوں کا بڑا طبقہ اس مہینہ میں مسجد سے جڑ جاتا ہے اور پنج وقتہ نمازوں میں دیگر ایام کے بالمقابل مصلین کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود وقت گزاری کے جو طریقے اس ماہ مقدس میں تلاش کئے جاتے ہیں وہ قابل افسوس پہلو ہے۔ بعض کاروباری حضرات چھ دن یا دس دن کی تراویح کے بعد فارغ ہوجاتے ہیں اور پھر وہ تراویح پڑھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے ہیں اور دوسری جانب حفاظ کرام جو چھ دن یا دس دن یا اس سے کم زیادہ کی تراویح پڑھا کر فارغ ہوتے ہیں وہ بھی تراویح پڑھنے میں تساہلی برتتے ہیں اور رمضان کے بقیہ حصوں میں تلاوت جیسی عظیم نعمت سے دور ہوجاتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رمضان میں تلاوت کلام اللہ کا مقصد حقیقی محض تراویح ہے جس کے بعد تلاوت کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی کا راز قرآن میں موجود ہے اگر ہم قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور اس میں بیان کردہ احکامات سمیت دیگر باتوں کی گہرائی میں غور و فکر کریں تو دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی مسائل کا بھی حل اس میں مل جائے گا لیکن افسوس کہ ہمارے پاس تلاوت کے لئے بھی وقت نہیں ہے، چہ جائیکہ قرآن کے معانی و مفاہیم میں غور و فکر کرکے اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔ یہ بہترین وقت اور مہینہ ہے جس میں انسان اگر چاہے تو قرآن فہمی کے لئے بھی کوشش کرسکتا ہے اور معتبر علماء کرام کی لکھی ہوئی تفاسیر اور تراجم کے ذریعہ قرآن میں موجود علوم و معارف سے بہرہ ور ہوسکتا ہے۔
حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم اس مقدس مہینہ میں مکمل تندہی اور مستعدی کے ساتھ تلاوت سمیت ذکر و اذکار میں مشغول رہیں تاکہ اللہ کی رحمت ہماری جانب متوجہ ہو۔ دعاؤں میں زیادہ سے زیادہ وقت لگائیں تاکہ اپنے مسائل کو اپنے اللہ تعالی کے سامنے رکھیں اور موجودہ حالات میں قلبی سکون و طمانینت حاصل ہو۔ دعاؤں سے تقدیریں بدل جاتی ہے اور اللہ رب العزت مانگنے والے کو کبھی نامراد نہیں لوٹاتے ہیں، اللہ تعالی کا قول ہے مجھ سے طلب کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ لیکن آج ہمارے پاس مانگنے کا وقت نہیں ہے، دینے والا داتا اعلان کررہا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اس کی مراد پوری کروں لیکن یہاں کوئی سائل نہیں ہے جو اپنے سوالات کو مالک دوجہاں کے سامنے رکھے۔ دنیاوی مشغولیت میں ہم اس قدر منہمک ہوگئے ہیں کہ ہم یہ بھی بھول گئے کہ ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے اور کیوں اللہ تعالی نے ہمیں اپنا خلیفہ بناکر دنیا میں مبعوث فرمایا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس مہینہ کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن مجید کے ذریعہ اپنا قرب عطا فرمائے۔
ماشاءاللہ بہت خوب
بہت عمدہ تحریر ہے ماشاءاللہ اللہ قبول فرمائے
شکریہ محترم
ماشاء اللہ اس تحریر کو پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ اللہ مزید زور قلم پیدا فرمائے! آمین
شکریہ محترم
ماشاءاللہ بہت لاجواب