مولانا رشید احمد گنگوہی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

 مولانا رشید احمد گنگوہی کی پیدائش اسلامی ہند کے ایسے دور میں ہوئی جب اس کے جاہ و جلال عظمت و اقتدار کا پرچم سرنگوں ہورہا تھا۔ اس کی بہاروں کا کارواں پابہ رکاب تھا، باد خزاں کے جھونکے چلنے شروع ہوگئے تھے۔ صدیوں سے سینچے گئے چمن کو فرنگی دیمک ہر سمت سے چاٹ کر کھوکھلا کررہے تھے۔ یہ وقت تھا جب پوری ملتِ اسلامیہ مایوسی اور یاس و قنوطیت کے گہرے سمندر میں ڈوب چکی تھی۔ پوری قوم باحال پریشان باچاک گریباں نالہ و شیون اور ماتم میں مصروف تھی۔ ایسے وقت میں امت مسلمہ کی ڈوبتی نیا کو پار لگانے اور منجدھار میں پھنسے مسلمانوں کو ساحل تک پہنچانے کے لئے علماء ربانیین ایک جماعت کو میدان عمل میں اتارا جنہوں نے برصغیر میں مسلمانوں کے تحفظ اور دین اسلام کی بقا و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ ان یاران باصفا کے قافلہ میں اہم اور نمایاں نام مولانا رشید احمد گنگوہی اور آپ کے رفیق محترم مولانا محمد قاسم نانوتوی کا بھی ہے، جن کی  تدبر و فراست نے یاس و ناامیدی کے دلدل سے قوم کو بچایا اور ان کے دلوں میں یہ یقین پوری قوت سے پیدا کیا کہ آنسو بہانے سے قوموں کی تقدیر نہیں بدلتی ہے بلکہ اس کیلئے جہد مسلسل، عزم مصمم اور فولادی جگر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ان حضرات نے یہ کام کرکے دکھایا۔

مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا رشید احمد گنگوہی کی تصانیف
رشید احمد گنگوہی

ولادت با سعادت 

مولانا رشید احمد گنگوہی کی ولادت 6 ذیقعدہ 1244 ہجری بمطابق 1829 کو سہارنپور کے مردم خیز قصبہ گنگوہ میں ہوئی ہے۔ آپ کے والد محترم مولانا ہدایت علی صاحب علم و فضل تھے، آپ کو خاندان ولی اللہی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ اپنے وقت کے مشہور بزرگ شیخ طریقت شیخ غلام علی مجددی نقشبندی سے بیعت تھے اور ان کے خلیفہ بھی تھے۔ قسمت کی خوبی دیکھئیے کہ جب مولانا رشید احمد گنگوہی کی عمر محض سات سال تھی جب آپ کے والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپ کا خاندانی سلسلہ شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ(شیخ عبد القدوس گنگوہی کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں) سے ہوکر صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ 

 ابتدائی تعلیم 

چونکہ مولانا رشید احمد گنگوہی  کا خاندان شرعی علوم و فنون کا گہوارہ تھا۔ اس لئے ابتدائی تعلیم اپنے ماموں مولوی محمد تقی کے پاس حاصل کیا۔ فارسی کی چند کتابیں ماموں جان کے پاس مکمل کرنے کے بعد، فارسی کی بعض کتابیں مولوی محمد غوث سے پڑھیں۔ بعد ازاں آپ اپنے دادا قاضی پیر بخش کے ہمراہ رامپور تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے مولوی محمد بخش کے پاس عربی کی کتابیں ہدایت النحو تک پڑھیں۔ اس کے بعد آپ کو مزید تعلیم کیلئے دہلی کا سفر کرنا پڑا، جہاں آپ نے بقیہ علوم ظاہریہ کی تکمیل کی۔ 

مولانا رشید احمد گنگوہی مولانا مملوک علی نانوتوی کی خدمت میں

 مولانا رشید احمد گنگوہی دہلی ایسے وقت میں حصولِ علم کیلئے تشریف لے گئے تھے، جب یکے بعد دیگرے اہل فضل وکمال رخت سفر باندھ کر حجاز مقدس کیلئے روانہ ہورہے تھے۔ علم حدیث کی مجلس کی کچھ آبرو شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ کے صدقہ طفیل باقی بچ گئی تھی۔ آپ نے دہلی میں قیام کے دوران اکثر کتابیں مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی تھی، البتہ علم حدیث کی تحصیل کیلئے آپ کی نظر انتخاب خاندان ولی اللہی کے فیض یافتہ شاہ عبد الغنی مجددی نقشبندی پر پڑی، آپ نے اپنے رفیق محترم مولانا قاسم نانوتوی (مولانا قاسم نانوتوی کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں) کے ساتھ مل کر علم حدیث کیلئے اسی بابرکت مجلس کا انتخاب فرمایا اور یہیں سے علوم حدیث کی تکمیل فرمائی۔ مولانا رشید احمد گنگوہی سترہ سال کی عمر میں دہلی کیلئے روانہ ہوئے، چار سال تک دہلی میں قیام کے دوران علوم قرآنیہ، علوم حدیث نیز دیگر علوم کی تکمیل فرماکر 21 سال کی عمر میں اپنے وطن مالوف گنگوہ واپس تشریف لے آئے۔ 

مولانا رشید احمد گنگوہی حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی خدمت میں

دہلی میں قیام کے دوران مولانا رشید احمد گنگوہی نے حضرت نانوتوی سے بارہا سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں) کے فضل و کمال کو سنا تھا۔ علاوہ ازیں حضرت مولانا مملوک علی نانوتوی (مولانا مملوک علی نانوتوی کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں)کی خدمت میں رہتے ہوئے حاجی صاحب سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔ چونکہ یہ طالب علمی کا زمانہ تھا، اس لئے مکمل توجہ حصولِ علم پر مرکوز کئے ہوئے تھے۔ بیعت و سلوک کی جانب کوئی خاص التفات نہیں تھا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ایک شرعی مسئلہ میں مولانا محمد تھانوی سے اختلاف ہوگیا۔ عنفوان شباب کا زمانہ تھا، اظہار حق میں بلا تردد مولانا محمد تھانوی کے ذکر کردہ مسئلہ کے دلائل پر اعتراض جتلایا۔ یہ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ مولانا رشید احمد گنگوہی  بغرض مباحثہ بالمشافہ ملاقات کیلئے تھانہ بھون تشریف لے گئے۔ یہاں آپ کی ملاقات حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی۔ وجہ جاننے کے بعد حاجی صاحب نے فرمایا کہ وہ ہمارے بڑے ہیں، اور بڑوں کا ادب واحترام ضروری ہے۔ حاجی صاحب سے اس ملاقات نے آنے کا مقصد بدل دیا اور حاجی صاحب کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ ہمیشہ کیلئے ان کے دامنِ ادارت سے وابستہ ہوگئے۔ آپ محض ایک دن کے ارادہ سے تھانہ بھون تشریف لائے تھے، لیکن حاجی صاحب سے وابستگی نے اس قیام کو چالیس دنوں پر محیط کردیا۔اسی سفر میں مولانا رشید احمد گنگوہی نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے دست مبارک پر بیعت کی۔

 مولانا رشید احمد گنگوہی اور علم طب

 دہلی میں قیام کے دوران مولانا رشید احمد گنگوہی کو اتنا وقت نہیں مل سکا کہ طب کی کتابوں کا مطالعہ کیا جاتا، لیکن گنگوہ واپسی کے بعد آپ نے دو اہم کام از خود انجام دیئے۔ آپ نے حفظ قرآن کا ارادہ کیا اور محنت و لگن سے حفظ قرآن میں لگ گئے۔ کچھ مہینوں میں قرآن مجید کا حفظ مکمل کرلیا۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں آپ نے تراویح پڑھانے کا بھی اہتمام کیا۔ دوسرا کام یہ کیا کہ طب کی بعض کتابوں کا مطالعہ شروع کیا اور علم طب میں ایسی مہارت پیدا کی کہ باضابطہ لوگوں کا علاج بھی کرنے لگے۔ اللہ نے آپ کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی، بڑے بڑے حکماء سے ناامید ہوئے لاعلاج مریضوں کا تانتا آپ کے پاس لگ گیا۔ آپ بحسن و خوبی خدمت خلق کے اس فریضہ کو انجام دیتے رہے۔ ایک جانب آپ مطب کے ذریعہ خدمت خلق میں مصروف تھے، دوسری جانب آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری فرمایا تاکہ تشنگانِ علوم نبویہ کی پیاس بجھائی جائے۔ اس کے علاوہ روحانی تسکین کا سلسلہ تھانہ بھون سے جاری تھا۔ وقتاً فوقتاً اپنے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خدمت میں حاضر ہوتے رہا کرتے تھے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے اپنے معاش کے لئے طب کو اختیار کر رکھا تھا۔

 1857 کی جنگ آزادی

 1857کا سال مسلمانوں کیلئے قیامت خیز ثابت ہوا، مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ شوکت و حشمت زمین بوس ہوگئی تھی۔ مسلمانوں کی حکومت کا چراغ گل ہوگیا تھا اور انگریزوں کے تسلط نے ظلم و استبداد کی وہ تاریخ رقم کی تھی جس نے انسانیت کو شرمندہ کردیا۔ صاحب فضل وکمال کو دہلی کے گلی کوچوں میں در در بھٹکنے پر مجبور کردیا گیا۔ ایسے عالم میں غیرت مندوں کی جماعت سر پر کفن باندھ کر میدان جنگ میں آگئی جس کے نتیجہ میں پورے ملک میں آزادی کی لڑائی لڑی گئی۔ ایک جانب کیرانہ میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی(مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں) کیرانہ کا محاذ سنبھالا اور دوسری جانب تھانہ بھون کے علاقہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے سرفروشوں کی جماعت تیار کی اور شاملی کے میدان کو خون شہیداں سے لالہ زار کردیا۔ اس جنگ میں حاجی صاحب کے دوش بدوش مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی جیسے صاحب فضل وکمال بھی موجود تھے۔ سرفروشوں کی اس مقدس جماعت نے فرنگی فوج کے پرخچے اڑا دیئے اور انہیں میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن دیگر جگہوں پر انگریزوں کی مسلسل کامیابی کی وجہ سے اس فتح کا وہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا، جو ہونا چاہئے تھا۔ 

مولانا رشید احمد گنگوہی بحیثیت سرپرست دارالعلوم دیوبند 

دارالعلوم کے قیام کے بعد مسلسل مولانا رشید احمد گنگوہی دیوبند تشریف لے جاتے اور اپنے رفیق محترم مولانا قاسم نانوتوی کے ساتھ مل کر دارالعلوم کی فلاح وبہبود کیلئے مختلف امور پر تبادلہ خیالات فرماتے۔ 1297 ہجری میں حضرت نانوتوی کی وفات نے انہیں اس قدر مغموم کردیا کہ آپ کہنے لگے، اگر مشیت ایزدی نہ ہوتی تو آج ایک کے بجائے دو جنازے اٹھتے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی اور امام محمد قاسم نانوتوی کا ساتھ زمانہ طالب علمی سے تھا۔مولانا قاسم نانوتوی کی وفات سے آپ کو سخت صدمہ پہنچا تھا۔

حضرت نانوتوی کی وفات کے بعد علماء کرام کی توجہ مولانا رشید احمد گنگوہی کی جانب زیادہ بڑھ گئی تھی۔ اب تک حضرت نانوتوی دارالعلوم کی سرپرستی کے علاوہ دیگر فتنوں کا بحسن وخوبی سد باب کئے ہوئے تھے لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی تھی۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کو دارالعلوم کا سرپرست بنایا گیا اور حضرت نانوتوی کے دیگر امور کو جاری رکھنے کیلئے آپ کو میدان میں آنا پڑا۔ ذمہ داری کا بوجھ آپ کے کندھوں پر مزید بڑھتا چلا گیا۔ دارالعلوم کی سرپرستی کے بعد مظاہر علوم کے مخلصین یکے بعد دیگرے رخصت ہوگئے۔ یہاں جب سرپرست کی تلاش ہوئی تو آپ کی ذات کو منتخب کیا گیا۔ گوشہ نشینی اختیار کرنے والا یہ درویش امت کے مسائل سلجھانے کیلئے ہر طرح کی ذمہ داری کو قبول کرلیاتھا۔ آپ نے باضابطہ دیوبند میں اقامت اختیار نہیں کی البتہ دارالعلوم کے کام کاج اور تعلیمی نظام پر مکمل نگاہ رکھتے تھے۔ ان تمام خارجی مصروفیات کے باوجود آپ نے   درس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ کا درس پورے سال مکمل آب و تاب سے جاری رہا کرتا تھا۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ  (علامہ انور شاہ کشمیری کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں) نے بھی دارالعلوم سے فراغت کے بعد مکمل صحاح ستہ آپ سے پڑھی ہے۔ 

بدعات و خرافات کا سد باب کرنے کیلئے مولانا رشید احمد گنگوہی کے مشورہ سے مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے (براہین قاطعہ) کی تصنیف فرمائی۔ اس کتاب نے اہل بدعت کے غلط عقیدوں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ اس کتاب نے بدعات و خرافات کے متعلق پیدا ہونے والے مختلف شکوک وشبہات کو ختم کردیا۔ آپ نے مکمل یکسوئی کے ساتھ بدعات و خرافات کے قلع قمع کیلئے مختلف طریقوں سے کام کیا۔ عوام میں پھیلی رسومات کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے کتابوں کی تصانیف کے علاوہ اصلاحی بیانات کا سلسلہ بھی جاری فرمایا تھا۔ 

مولانا رشید احمد گنگوہی کی تصانیف

آپ نے درس و تدریس کے علاوہ کتابوں کی تصانیف کی جانب بھی توجہ دی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی اخیر زمانے تک درس و تدریس وابستہ رہے تھے لیکن مولانا قاسم نانوتوی کی وفات کے بعد عوام کے علاوہ علماء کا رجوع بھی آپ کی جانب بہت زیادہ ہوگیا تھا۔ بلکہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ اپنے دور میں آپ کے پایہ کا کوئی دوسرا عالم مصلح اور متقی و پرہیزگار نہیں تھا۔ تمام تر مصروفیات کے باوجود آپ نے کئی اہم موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے اور عوام الناس کے لئے ہدایت کے سامان کئے ہیں۔

امداد السلوک

سبیل الرشاد

یہ کتاب احناف پر کئے گئے اعتراضات کے تشفی بخش جوابات کا مجموعہ ہے۔

اوثق العری

تصفیہ القلوب

ہدایہ الشیعہ

فتاویٰ رشیدیہ

زبدہ المناسک

علاوہ ازیں آپ کے درس بخاری اور درس ترمذی کو بھی کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ ان چند کتابوں کے علاوہ بے شمار قیمتی علمی خزینے خط و کتابت اور رسائل کی شکل میں موجود ہے۔ 

مولانا رشید احمد گنگوہی اور نصاب ندوۃ العلماء

مولانا محمد علی مونگیری  نے جب ندوہ العلماء کے تحت بارہ افراد پر مشتمل کمیٹی نصاب تعلیم کیلئے بنائی تو اس وقت یہ طے پایا گیا کہ نصاب کی از سر نو ترتیب کے بعد اسے قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں پیش کیا جائے اور آپ کے تجربات اور تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کیلئے لائحہ عمل طے کیا جائے۔

سفر آخرت 

حیات مستعار کے اخیر ایام میں آپ بستر مرض پر دراز ہوگئے تھے۔ بخار اور دیگر پریشانیوں کی وجہ سے بدن میں حد درجہ نقاہت پیدا ہوگئی تھی۔ دواؤں کے نسخے کارگر ثابت نہیں ہورہے تھے۔ آپ کے فرزند حکیم مسعود جو سند یافتہ اور تجربہ کار حکیم تھے۔ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی، دوائیاں تجویز کی  لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ بالآخر 9 جمادی الثانی 1323 ہجری بمطابق 11 اگست 1908 بروز جمعہ، نماز سے قبل آپ دار بقا کی جانب روانہ ہوگئے۔ آپ کا وصال امت مسلمہ کیلئے عظیم سانحہ تھا۔ ایک شمع تھی، جس کے اردگرد پروانوں کی بھیڑ تھی، وہ ہمیشہ کیلئے بجھ گئی تھی۔مولانا رشید احمد گنگوہی نے پوری زندگی علم و عمل اور اشاعت اسلام میں گزاری ہے۔ 

 

 

Related Posts

0 thoughts on “مولانا رشید احمد گنگوہی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے