رزق حلال سے حرام عمل کی تکمیل
اللہ تعالی نے امت مسلمہ کو بے شمار انعامات سے نوازا ہے، اور مسلمانوں کے لئے تمام احکامات کو واضح اور صاف طور پر بیان کردیا ہے۔ جس طرح نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور دیگر عبادات کو مذہب اسلام میں مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، ٹھیک اسی طرح کھانے پینے اور رہنے سہنے کے باب میں بھی مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کی مکمل راہنمائی فرمائی ہے۔ مذاہب عالَم میں مذہب اسلام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ اپنے متبعین کی زندگی کے ہر شعبہ اور ہر میدان میں مکمل از اول تا آخر راہنمائی کرتا ہے۔ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو طریقہ زندگی سکھایا اور بتایا ہے کہ کن راستوں پر چل کر راہ راست کے راہی بنیں گے اور وہ کون سے راستے اور طریقے ہیں جو انسان کو گمراہی اور خالق حقیقی کی عبادت سے دور کرتے ہیں۔ کھانے پینے کے باب میں مذہب اسلام نے فطرت اور انسانی طبیعت کا مکمل خیال رکھا ہے اور ان تمام چیزوں کو حلال قرار دیا ہے جو انسانی طبیعت کے موافق ہے لیکن وہ چیزیں جو گندگی یا دیگر خصائص رذیلہ سے متصف ہیں انہیں حرام قرار دیا ہے۔ آخر مذہب اسلام نے کھانے پینے کی اشیاء میں اس قدر اہتمام کیوں کیا ہے اور اس کے نتائج کیا برآمد ہوتے ہیں؟
مذہب اسلام نے انسان کو زندگی گزارنے اور کھانے پینے کی اشیاء میں ایک اصول بتا دیا ہے۔ اگر کوئی انسان ایسے ذرائع سے آمدنی حاصل کرتا ہے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے تو وہ ہر حال میں حرام ہے، کسی تاویل اور توجیہ کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی ہے۔ جو لوگ حالات اور زمانے کی رفتار کی بات کرتے ہیں اور اپنے لئے ایسے راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کے ذریعہ وہ حرام مال کو قابل انتفاع بنا سکیں یا اس سے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرسکیں وہ مکمل طور پر خسارہ میں ہے۔ اور دوسری چیز ہے، ایسی اشیاء کا استعمال کرنا جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر مرد حضرات کے لئے ریشمی کپڑے اور سونا پہننے کی اجازت نہیں ہے، اب اگر کوئی شخص اپنے رزق حلال سے ان کاموں کو انجام دے اور اپنے لئے ریشمی کپڑوں کا جوڑا بنائے تو بھی اس کے لئے پہننا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ یہ کپڑا صراحتا ممنوع ہے۔ اسی طرح مذہب اسلام نے کھانے پینے کی اشیاء میں ان چیزوں کا بہت زیادہ خیال رکھا ہے۔ جو چیزیں حلال قرار دی گئی ہیں ان کے کھانے میں برکت ہے اور صحت کے لئے مفید ہے لیکن جن چیزوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے وہ دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے نقصان دہ ہیں۔
دنیا کی بڑی آبادی گوشت کو اپنے لئے محبوب ترین غذا تصور کرتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں اس کی پیدا وار بھی بکثرت ہیں۔ مذہب اسلام نے بھی گوشت کھانے کی اجازت دی ہے لیکن چند شرائط کے ساتھ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں: "اے ایمان والو! اگر (واقعی) تم اللہ ہی کی بندگی کرتے ہو تو جو کچھ ہم نے تم کو عطا کیا ہے، اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ بے شک اللہ نے تم پر مردار، خون، سور کا گوشت، اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی کا نام لیا گیا ہو، حرام کیا ہے ، ہاں ، جو شخص مجبور ہوجائے (اور ان میں سے کچھ کھالے) نہ نافرمانی مقصود ہو اور نہ حد سے تجاوز کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں، بے شک اللہ تعالی بہت در گزر کرنے والے اور نہایت مہربان ہیں”۔ (سورہ بقرہ۔ 172/172)۔
ان آیات کی تفسیر میں صاحب معارف القرآن مفتی شفیع عثمانیؒ لکھتے ہیں: "آیات مذکورہ میں جیسے حرام کھانے کی ممانعت کی گئی ہے اسی طرح حلال طیب چیزوں کے کھانے اور اس پر شکر گزار ہونے کی ترغیب بھی ہے، کیونکہ جس طرح حرام کھانے سے اخلاق رذیلہ پیدا ہوتے ہیں، عبادت کا ذوق جاتا رہتا ہے، دعا قبول نہیں ہوتی ہے اسی طرح حلال کھانے سے ایک نور پیدا ہوتا ہے، اخلاق رذیلہ سے نفرت، اخلاق فاضلہ کی رغبت پیدا ہوتی ہے، عبادت میں دل لگتا ہے، گناہ سے دل گھبراتا ہے، دعا قبول ہوتی ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے اپنے سب رسولوں کو یہ ہدایت فرمائی ہے "اے ہمارے رسولو! تم پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور نیک عمل کرو”۔ اس میں اشارہ ہے کہ نیک عمل کرنے میں رزق حلال کو بڑا دخل ہے، اسی طرح قبول دعا میں حلال کھانا معین اور حرام مانع قبول ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بہت سے لوگ طویل السفر پریشان حال اللہ کے سامنے دعاء کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں، اور یارب یارب پکارتے ہیں، مگر ان کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس ان کا حرام، غذا ان کی حرام ان حالات میں ان کی دعا کہاں قبول ہوسکتی ہے”۔
آج اگر ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے کھانے پینے، اور روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کس حد تک مشکوک ہوگئی ہیں۔ آج ہمارے ملک میں کئی کمپنیاں ایسی ہیں جو ایسے مواد استعمال کرکے اپنے پروڈکٹس تیار کرتی ہے جسے شریعت نے مکمل طور پر حرام قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر کسی بھی جانور کا پیشاب ہمارے یہاں ممنوع ہے، اب اگر ایسا سامان استعمال کیا جائے جس میں کسی جانور کا پیشاب استعمال کیا گیا ہو تو وہ یقینا حرام ہوگا، اسی طرح خنزیر، الکحل وغیرہ جن کا حرام ہونا منصوص ہیں اور ان کے قابل استعمال ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے، اب اگر اپنی مرضی سے ایسی اشیاء استعمال کی جائیں جن میں انہیں بطور مٹیریل استعمال کیا گیا ہو تو یہ حرام ہے۔ ایسی صورت میں ایسی کمپنیوں کے پروڈکٹس کے استعمال سے احتراز کرنا بھی ضروری ہے جو ان معاملات میں بدنام ہو یا جن کی شہرت ایسی چیزوں کے استعمال کرنے میں عام ہو۔
کھانے پینے کی چیزوں میں حلال و حرام کی تمیز کرنا بہت ضروری ہے، موجودہ دور میں ہر چیز مشتبہ ہوتی جارہی ہے۔ جن چیزوں کے متعلق ہم گمان بھی نہیں رکھتے ہیں وہ چیزیں بھی حرام بن جارہی ہیں۔ گوشت، اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے، اور کھانے پینے کی اشیاء میں گوشت کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی اور غذا کو حاصل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی آبادی اس نعمت سے لطف اندوز ہوتی ہے اور خود ہمارے ملک کا بڑا طبقہ اس نعمت سے استفادہ کرتا ہے۔ گوشت کی کئی قسمیں اور کئی طرح کے گوشت بازار میں دستیاب ہوتے ہیں، اس لئے بحیثیت مسلمان ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان احکامات سے واقف ہوں جو اس کے متعلق بیان کئے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہمارے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کن جانوروں کے گوشت کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے اور کن جانوروں کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ان تمام جانوروں کی اجمالی تفصیل دارالعلوم نے اپنے ایک فتوی میں دیا ہے، فتوٰ ی ملاحظہ ہو:
"احناف کے نزدیک دریائی جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے، باقی کوئی جانور حلال نہیں ہے، اور مچھلیوں میں بھی جو طبعی موت مرکر پانی میں الٹی تیرنے لگے وہ بھی جائز نہیں، اور خشکی کے جانوروں میں جو جانور یا پرندے دانت یا پنجوں سے شکار کرتے ہیں جیسے: شیر، چیتا، بھیڑیا، لومڑی، ریچھ، گیدڑ، بجو، بندر، ہاتھی، بلی، شکرہ، باز اور گدھ وغیرہ یا ایسے جانور جن کی غذا صرف گندگی اور مردار ہو جیسے سور (خنزیر) کتا یا ان میں خون بالکل نہیں ہوتا جیسے: بھڑ، مکھی، مکڑی، اور بچھو وغیرہ یا ان میں بہنے والا خون نہیں ہوتا جیسے: سانپ، چھپکلی، گرگٹ، نیولا، تمام زمین کے اندر رہنے والے جانور اور کیڑے مکوڑے حرام ہیں، البتہ ٹڈی میں خون نہیں ہوتا ہے پھر بھی وہ حلال ہے، باقی دیگر جانور حلال ہیں، جیسے: اونٹ، بھینس، گائے، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، ہرن، نیل گائے، بطخ، کبوتر، طوطا، مینا، فاختہ اور بٹیر وغیرہ”۔ اگر ہم بازار یا دکان سے گوشت خرید رہے ہیں تو اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ہم حلال جانور کا گوشت خرید رہے ہیں، کیونکہ آج کل بازار میں کئی طرح کے جانوروں کے گوشت دستیاب ہوتے ہیں اور ان میں امتیاز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس سلسلہ میں دوسری اہم چیز حلال جانور کا حلال ہونا ہے۔ جن جانوروں کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے، ان کے ذبح کرنے کے طریقہ کو بھی شریعت نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ اگر حلال جانور کو ان شرائط کے مطابق ذبح کیا جائے تو ان کا گوشت حلال ہوگا، بصورت دیگر حرام قرار دیا جائے گا۔ ذبح کے متعلق خود قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں: اور ایسی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، یہ یقینا گناہ ہے، اور شیاطین اپنے دوستوں کو ورغلاتے رہتے ہیں کہ وہ تم لوگوں سے کج بحثی کریں اور اگر تم ان کی بات مان جاؤ تو تم بھی مشرک ہوجاؤ گے”۔ اس آیت کی تفسیر میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں: "یعنی جن چیزوں کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے، اگر مشرکین کی باتوں سے متاثر ہوکر تم انہیں حلال سمجھنے لگے، تو یہ بھی شرک ہوگا، یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ انسان صرف غیر اللہ کی عبادت کرنے ہی سے مشرک نہیں ہوجاتا، بلکہ اگر وہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کہنے لگے، حالانکہ اس پر کتاب و سنت کی یقینی دلیل ہو تو اس سے بھی انسان ایمان کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے”۔ اب اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، ہوٹل، ریسٹورنٹ، ڈھابہ اور دیگر کھانے کی جگہوں کا جائزہ لیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ شہر اور اطراف شہر میں بیشتر مقامات وہ ہیں جو کئی وجوہات کی بنا پر مشکوک ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ہمیں یہ نہ معلوم ہو کہ جانور کہاں سے آیا ہے اور اسے ذبح کرنے والا کون ہے، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حالات و قرائن ایسے ہوں کہ شرعی طریقہ سے ذبح ہونا ہی مشکوک ہوجائے، تو پھر ایسی صورت میں ایسی جگہوں پر کھانے پینے سے احتراز ضروری ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں حلال سرٹیفیکیٹ کا دستور ہے، جسے ملی تنظیموں کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے، اس کے باوجود ہمارے ملک میں حلال کا بہت زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ ممبئی میں رہنے والے ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ ایک مرتبہ مغربی برانڈ کے ایک ہوٹل میں جانا ہوا، کاؤنٹر پر موجود فرد سے حلال کے متعلق دریافت کیا تو اس نے کہا، ہمارے یہاں جھٹکا ملتا ہے (غیروں کے طرز پر ذبح کرنے کو جھٹکا کہتے ہیں) ۔ حالانکہ وہاں مسلمانوں کی آمد و رفت رہتی ہے اور لوگ شوق و ذوق سے اپنا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے ایسی جگہوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
ایک بات طے ہے کہ اگر رزق حلال اور خون پسینہ کی کمائی سے بھی حرام غذا کا استعمال کیا جائے تو وہ حرام ہی رہے گا بلکہ اس کی قباحت مزید بڑھ جائے گی۔ اس لئے اپنے خون پسینہ کی کمائی سے کھانے پینے کے متعلق محتاط رہنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ ہماری ادنی سی غلطی ہمیں حرام کے دروازے پر پہنچا دیں۔ انسان کو اللہ تعالی نے عقل سلیم اس لئے عطا کیا ہے تاکہ وہ صحیح اور غلط، اچھائی اور برائی، حلال و حرام میں تمیز پیدا کرے اور اپنی زندگی اپنے پیدا کرنے والے کے حکم کے مطابق گزارے۔