خواجہ قطب الدین بختیار کاکی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو
سرخیل سادات اولیاء، عظیم المرتبت، فنا فی اللہ، سلطان المشائخ، زہد و استغنا کے پیکر، استقامت کے پہاڑ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے ان عظیم ترین اشخاص میں سے ہیں، جن کے توسط سے، جن کی نگاہ ناز سے، جن کے علوم و معارف سے، جن کے باطنی اسرار و حکم سے سلسلہ چشتیہ کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا، اور لا تعداد گم گشتہ راہ لوگوں کو ہدایت نصیب ہوئی ہے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ آپ نے خلق خدا کو راہ راست پر لانے کے لئے اور ان کی ہدایت کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو اللہ تعالیٰ نے ہر دو علوم (علوم ظاہری اور علوم باطنی) سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔
![]() |
khawaja Qutbuddin Bakhtiyar Kaki |
ولادت با سعادت
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی تاریخ پیدائش میں قدرے اختلاف ہے، لیکن راجح قول کے مطابق آپ کی ولادت با سعادت 582 ہجری کو ماوراء النہر کے مشہور علاقہ قصبہ اوش میں ہوئی تھی۔ تاریخی روایات کے مطابق آپ کی پیدائش اگرچہ رات کے نصف حصہ میں ہوئی تھی، لیکن انوار و برکات کی تجلی نے روشنی کا ایسا سماں باندھ دیا تھا جس سے دیکھنے والوں کو صبح کا گمان ہورہا تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے ہوکرحضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ جب آپ کی عمر محض ڈیڑھ سال تھی، آپ کے والد محترم سید کمال الدین احمد بن موسیٰ اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ آپ والدہ کی زیر تربیت رہے۔نیک پارسا والدہ محترمہ نے تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی اور والد کی عدم موجودگی کے باوجود آپ کی دینی تربیت کے لئے کوشاں رہا کرتی تھیں۔
تعلیم و تربیت
جب آپ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو والدہ نے ہمسائی عورت کے ہمراہ تختی وغیرہ لیکر معلم کے پاس روانہ کیا۔ درمیان راستہ میں ایک بزرگ نے بچے کو شیخ ابو حفص اوشی کے درسگاہ میں پہنچا دیا، اور شیخ سے ارشاد فرمایا کہ احکم الحاکمین کا حکم ہے کہ اس بچہ پر خصوصی توجہ دی جائے۔ کچھ دنوں تک ان کے زیرِ سایہ ظاہری علوم کی تحصیل میں مشغول رہے، بعد ازاں قاضی حمید الدین ناگوری کی خدمت میں علوم ظاہریہ کی تکمیل فرمائی۔ تاریخی روایت کے مطابق آپ نے بچپن میں ہی اپنی والدہ سے قرآن مجید کے پندرہ پارے پڑھ لئے تھے۔ جب آپ قاضی حمید الدین ناگوری کی خدمت میں حصول علم کے لئے تشریف لے گئے تو انہوں نے پوچھا کہ کیا پڑھنا ہے تو آپ نے "سبحان الذی اسری بعدہ” پڑھ کر سنایا اور فرمایا یہاں سے پڑھنا ہے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو اللہ تعالٰی نے بہت کم عرصہ میں علوم ظاہریہ میں باکمال بنا دیا تھا۔
بیعت و سلوک
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو بلوغ کے ابتدائی زمانہ میں ہی باطنی علوم کی تحصیل کا شوق پیدا ہوا اور یہ شوق انہیں اس ولی کامل، خضر طریقت کے دربار میں پہنچا دیا جن کی رہبری و راہنمائی میں کمال و تکمیل کے مدارج تک پہنچنا مقدر تھا۔ محض سترہ سال کی عمر میں آپ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور محض بیس سال کی عمر میں فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور مسجد میں ممتاز، جلیل القدر، یکتائے روزگار مشائخ عظام کی موجودگی میں خلعت خلافت سے سرفراز کئے گئے۔ آپ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے پہلے خلیفہ ہیں اور بعد کے زمانے میں شیخ کے دامن ادارت سے اس طرح منسلک ہوئے کہ زندگی بھر کیلئے اپنے شیخ کے ہوکر رہ گئے۔خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی سلوک و معرفت کے موتی سمیٹنے شروع کردیئے تھے، آپ کے اس جذبہ صادق کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے آپ کے فیوض و برکات کو خلق کے لئے عام فرمایا، اور عوام الناس کی کثیر تعداد نے آپ سے علمی و روحانی فیض حاصل کیا ہے۔
ہندوستان آمد
خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی منشا پر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ہندوستان تشریف لائے، کچھ عرصہ خواجہ معین الدین اجمیری صاحب کی خدمت میں رہے، پھر انہی کے حکم پر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نےدہلی کو اپنا مسکن بنالیا۔ در اصل مشائخ عظام کا ایک طریق کار رہا ہے کہ وہ ضرورت کے اعتبار سے اپنے تربیت یافتہ خلفا اور مریدین کو علاقوں میں بھیجا کرتے تھے۔ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں بکھرے ہوئے مشائخ اور خانقاہی نظام سے وابستہ حضرات اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان مشائخ عظام کے ذریعہ ایک جانب مسلمانوں میں پھیلی بُرائیوں کو ختم کرنے کا کام لیا تو دوسری جانب ان کی توجہات اور دعائے نیم شبی کے طفیل بے شمار خلق خدا کو دربار خداوندی میں سجدہ ریزی کی سعادت نصیب ہوئی۔جب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اپنے شیخ کے حکم کے مطابق دہلی پہنچے اس وقت دہلی کا وہ زمانہ تھا جب تاتاریوں کی تباہی و بربادی نے عالم اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دو چار کر رکھا تھا۔ اکناف عالم کے مشائخ و جلیل القدر علماء کرام دہلی میں جمع ہورہے تھے۔ دہلی اہل اللہ اور علوم و معارف کے خزینے کا مسکن بن چکا تھا۔ علماء و مشائخ اور شرعی علوم کے ان نیر تاباں کے درمیان آپ کی حیثیت آفتاب کامل کی تھی۔ جس کی ضیا پاش روشنی سے ہر کوئی مستفید ہورہا تھا۔ شہر کی آبادی سے دور غیاث پور کے علاقہ میں آپ قیام پذیر تھے۔ عوام الناس کی عقیدت کی وجہ سے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی مستقل حالت استغراق میں رہا کرتے تھے۔ امراء و سلاطین کی جانب سے پیش کردہ ہدایا و تحائف سے اجتناب فرماتے۔ واردین کی ضیافت فرماتے اور ان کی تربیت پر مکمل توجہ دیا کرتے تھے۔ سلطان شمس الدین التمش نے آپ کی شایان شان آپ کی پذیرائی کی۔ سلطان شمس الدین التمش کا معمول تھا کہ ہفتہ میں دوبارخواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے ملاقات کیلئے تشریف لاتے۔ لیکن خدائی شان کہ جس کے در پر شاہوں کا جم غفیر ہوا کرتا تھا وہ خود کبھی شاہی دربار میں نہیں پہنچا۔ خواجہ قطب الدین فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اکابرین نے شاہوں کے دربار سے ہمیشہ خود کو الگ تھلگ رکھا ہے، اگر میں دربار شاہی میں حاضری دینے لگوں، تو ان نفوسِ قدسیہ کو کیا جواب دوں گا۔ بعد کے زمانے میں آپ کے خلیفہ اجل شیخ فریدالدین گنج شکر اور ان کے متبعین شیخ نظام الدین اولیاء اور آپ کے پیر بھائی شیخ علاؤالدین علی احمد صابر کلیری وغیرہ کا یہ معمول برقرار رہا تھا۔ امراء وسلاطین سے اجتناب دینی مفاد کے پیش نظر تھا تاکہ عوام بلا جھجھک خانقاہوں میں دینی تعلیم اور تربیت کے لئے آمد و رفت جاری رکھ سکیں، لیکن بعد کے زمانہ میں جب حالات نے کروٹ لی تو شیخ عبد القدوس گنگوہی ؒ نے ارباب سلطنت کو خطوط لکھ کر عوام کے ساتھ رحم دلی اور انصاف کرنے اور علماء و ائمہ حضرات کی توقیر کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اللہ کے یہ پر اسرار بندے زمانہ شناس اور نبض شناس تھے جن کے دربار میں شاہ و گدا سب برابر بیٹھا کرتے تھے۔
ایک دفعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مرشد و مربی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری دہلی تشریف لائے۔ خواجہ صاحب کے ایک پرانے شناسا نے قطب الدین بختیار کاکی کے متعلق کچھ باتیں کہہ دی۔ خواجہ صاحب نے فرمایا، بابا بختیار اتنی قلیل مدت میں اتنی شہرت ہوگئی کہ اب تمہارے خلاف باتیں بھی ہونے لگی ہے۔ ہمارے ساتھ اجمیر چلو، یہاں تمہارا کوئی قدر دان نہیں ہے۔ وہاں ہم تمہیں مخدوم بنا کر رکھیں گے۔ یہ سن کر مطیع و فرمانبردار مرید نے ارشاد فرمایا کہ، میری تو یہ مجال نہیں کہ آپ کے سامنے کھڑا رہوں، چہ جائیکہ بات بیٹھنے کی ہو۔ اسی وقت آپ خواجہ صاحب کے ہمراہ اجمیر کیلئے روانہ ہوگئے۔ دہلی والوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر آپ کے پیچھے ہولیا۔ عوام تو عوام خود دہلی کے سلطان شمس الدین التمش بھی اسی بھیڑ کا حصہ تھے۔ دہلی والوں کیلئے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی مفارقت نا قابلِ برداشت تھی۔ جب خواجہ اجمیری نے عوام کی یہ وارفتگی اور لگاؤ دیکھا تو یہ کہہ کر راستہ سے واپس کردیا کہ یہ شہرت و مقبولیت منجانب اللہ ہے، اب جاؤ دہلی کو تمہیں ہی سنبھالنا ہے۔
آپ ہمیشہ عبادت و ریاضت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ ہر دن سو رکعت نفل نماز کا معمول تھا، نیز رات کو تین ہزار درود شریف پڑھا کرتے تھے۔ شادی کے بعد تین چار دنوں تک مصروفیت کی وجہ سے یہ اہتمام باقی نہیں رہا۔ آپ کے خادم انیس احمد نے خواب دیکھا کہ ایک عالیشان محل ہے۔ باہر مشائخ عظام کا بڑا مجمع ہے۔ دروازے پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لوگوں کا پیغام اندر پہنچا رہے ہیں۔ میں نے بھی ملاقات کا پیغام بھجوایا۔ جواب آیا کہ ابھی تم اس کے اہل نہیں ہو، البتہ قطب الدین بختیار کاکی سے عرض کرنا کہ تین دنوں سے ہمارا تحفہ نہیں آیا ہے۔
کاکی کی وجہ تسمیہ
شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (تاریخ مشائخ چشت) میں بیان فرمایا کہ، دہلی میں قیام کے زمانے میں آپ کبھی کسی سے کچھ نہیں لیتے تھے۔ ہدایا و تحائف پیش کئے جاتے لیکن شان بے نیازی نے کبھی ان چیزوں کی جانب توجہ نہیں دی۔ جس کے نتیجہ میں بسا اوقات کئی وقتوں میں فاقہ ہوجایا کرتا تھا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ہمسائی عورت سے کچھ قرض لے لیا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ ہمسائی عورت نے اہلیہ محترمہ سے کہہ دیا کہ اگر ہم قرض نہ دیں تو تم بھوکے مرجاؤ۔ یہ بات اہلیہ محترمہ کے دل کو لگ گئی۔ موقع دیکھ کر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے تذکرہ کردیا۔ شیخ نے گھر کے ایک طاق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب کبھی ضرورت پیش آئے وہاں سے کاک ( روٹی) لے لیا کرو۔ اللہ کے نیک بندوں کی کیا عجیب شان ہوا کرتی ہے، جس کے در پر ہندوستان کے امراء و سلاطین حاضری دیتے تھے، جس کی توجہ حاصل کرنے کے لئے شاہزادوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی، جن کی خانقاہوں میں ہزاروں لوگوں کی کفالت ہوتی تھی خود ان کے گھر فاقہ ہوا کرتا تھا۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بھی انہیں نابغہ روزگار ہستیوں میں سے تھے جن کی خانقاہ میں عوام و خواص کا مجمع ہوتا تھا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جاتا تھا۔ ان کے کھانے پینے کا بندوبست کیا جاتا تھا لیکن خود خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے گھر فاقہ ہوا کرتا تھا۔
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی وفات اور ان کا مزار
حضرت شیخ قطب الدین بختیار کاکی کا وصال چودہ یا چوبیس ربیع الاول کو سن 633 یا 634 ہجری بروز دو شنبہ ہے۔ آپ کا مزار دہلی کے مہرولی علاقہ میں ہے۔ موجودہ دور میں چودہ ربیع الاول کو آپ کے مزار پر سالانہ عرس کا انتظام کیا جاتا ہے۔
وصال کے بعد جب آپ کا جنازہ تیار کرکے رکھا گیا تو خادم نے اعلان کیا کہ شیخ کی وصیت ہے کہ نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے جس نے کبھی کسی غیر محرم کو نہ دیکھا ہو، عصر کی سنت قضاء نہ کی ہو۔ پورے مجمع پر سناٹا چھا گیا، اتنے بڑے مجمع میں کوئی آگے نہیں بڑھا، اخیر میں سلطان شمس الدین التمش خود آگے بڑھے اور فرمایا کہ میں اسے راز رکھنا چاہتا تھا، لیکن جب شیخ نے ہی راز کو افشا کردیا تو اب چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
آپ کا حلقہ ادارت بہت وسیع تھا، آپ کے خلفاء کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ لیکن آپ کے تین خلفاء کا سلسلہ پورے برصغیر میں جاری رہا، آپ کے سب سے مشہور خلیفہ شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بعد کے زمانے میں خلق خدا نے ان خلفاء کے ذریعہ شیخ کے کمالات سے دینی و روحانی تسکین حاصل کی ہے۔ آج بھی پورے برصغیر میں سلسلہ چشتیہ کے اکابرین کی سند شیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ سے جاکر ملتی ہے۔
بہت عمدہ سلسلہ ہے
جاری رکھیں
ماشاءاللہ
Awesome
Great
Keep it up
جزاک اللہ خیرا
Great job
Keep it up
Very well
Nice,
ماشاءاللہ بہت خوب
Great