حضرت مولانا ولی رحمانی

حضرت مولانا ولی رحمانی

 

امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمدولی رحمانی کی تعلیمی خدمات

 

 

 

امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کی ذات گرامی مسلمانانِ ہند کے لئے ایک بیش قیمت تحفہ تھی جسے رب ذوالجلال نے وقت موعود پر اپنے پاس بلا لیا ہے۔ حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے بظاہر اس  کو کوئی پر کرنے والا نہیں ہے۔ آپ کی وفات سے امت مسلمہ پر جو غم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں انہیں الفاظ کے پیرایہ میں ڈھالا نہیں جاسکتا ہے۔ دل و دماغ اور قلب و جگر پر اس اندوہناک خبر کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں وہ آہ و فغاں اور اشکوں کی بارش سے دھوئے نہیں جاسکتے ہیں۔ مولانا ولی رحمانی صرف مذہبی قائد، سیاسی لیڈر، خانقاہی مصلح، عوامی خطیب یا بے مثال قلم کار نہیں تھے بلکہ زندگی کے مختلف شعبے جات کے، وہ ایسے منجھے ہوئے قائد و راہنما تھے جنہوں نے آغاز سے ہی مختلف میدانوں اور حلقوں میں اپنی قابلیت و صلاحیت سے امت کی راہنمائی کی تھی۔ آپ نے سیاست کی گلیاروں سے خانقاہ کی خلوت نشینی اور عوامی تقریبات سے لے کر لیڈران کی خاص مجالس تک، ہر جگہ اور ہر طرح سے امت مسلمہ کے تئیں اپنے فرائض منصبی کو نبھانے کی بھر پور کوشش کی تھی۔  

 

Maulana-wali-rahmani
Maulana Wali Rahmani


امیر شریعت مولانا ولی رحمانی صاحب بیک وقت کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور آپ نے بفضل اللہ اپنے عہدوں کے ساتھ انصاف بھی کیا ہے۔ آپ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور امارت شرعیہ کو اپنی قیادت میں مزید متحرک و فعال بنایا اور ان دونوں اداروں سے کئی اہم تحریکات کو شروع فرمایا۔ آپ جری، بیباک، نڈر، بے خوف اور فعال و متحرک انسان تھے۔ آپ کی زندگی جد وجہد سے بھری پڑی ہے، آپ خود بھی چاق وچوبند اور امت مسلمہ کے لئے متفکر رہا کرتے تھے اور اپنے لواحقین اور محبین کو بھی اس جانب خصوصی توجہ دلایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ چند سالوں کے وقفہ میں ہی ان دونوں اداروں نے اپنی فعالیت اور تحریک کے ذریعہ امت مسلمہ میں نئی روح پھونک دی تھی اور مایوسی کے بادل چھٹنے لگے تھے۔  
امارت شرعیہ کے تحت آپ نے تعلیمی بیداری مشن کا آغاز کیا، اس مشن کے تحت بہار، اڈیسہ و جھارکھنڈ کے ہر علاقہ اور بلوک میں تعلیم کی اہمیت و افادیت پر پروگرام منعقد کرائے  اور لوگوں کو موجودہ دور میں تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرانے کی سعی کی۔  

کسی بھی انسان کی زندگی کے اجزائے ترکیبی میں علم و ادب بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ انسانی فضل و کمال میں علم ایسی دولت ہے جس کے فیوض و برکات بعد از مرگ بھی زندہ و تابندہ رہتے ہیں۔ موجودہ دور میں عالمی طور پر اقوام و ملل کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ہونے کا دار و مدار علمی تناسب پر طے کیا جاتا ہے۔ جن اقوام و ملل کے ہاتھوں میں علم کی کنجی ہے وہ دنیا کے لئے قائدانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں ہو رہی روز افزوں ترقی میں ان کا نمایاں حصہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کے باشندے دیگر اقوام و ملل سے بہتر و برتر تصور کئے جاتے ہیں۔ انسانوں کی دنیا میں بھی یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ زیور علم سے آراستہ و پیراستہ شخص اپنے ہم عمر ، ہم وطن، ہم مشرب اور ہم مسلک افراد سے زیادہ معزز اور رتبے کا حامل  تصور کیا جاتا ہے۔  ان کی آراء کو اہمیت دی جاتی ہیں اور سماج و معاشرہ میں ان کو باعزت گردانا جاتا ہے۔ تہذیب و تمدن اور مہذب سماج کی تشکیل علم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔  

آزاد ہندوستان کے علمی جغرافیہ کا  جائزہ لیا جائے تو اگر یہ قابلِ ذکر نہیں تو کم از کم قابلِ ملامت بھی نہیں ہے۔ ملک کے طول و عرض میں کئی ایسے ادارے قائم ہیں جن کے تعلیمی معیار اور نت نئی کھوج نے ہندوستان کو دیگر اقوام عالم میں شناخت عطا کی ہے۔ ہندوستان کے بسنے والوں نے دیگر ممالک میں بھی اپنی علمی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور وہاں کی ترقیات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہندوستان کے اس تعلیمی ڈھانچے کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت (مسلمان) کی علمی صورت حال اور علمی تناسب، ناقابلِ یقین اور خوفناک تصویر کی شکل میں ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت  ہندوستان کے مین اسٹریم شعبے جات میں قابلِ ذکر حد تک نمائندگی کرتی نظر نہیں آتی ہے۔ صوبائی طور پر یا مرکزی طور پر کہیں بھی مسلمان اپنے فیصدی اعتبار سے نہیں ہے بلکہ 20/25 فیصد میں بمشکل دو چار فیصد نظر آتے ہیں۔ آزادی کی سات دہائیوں بعد بھی ہمارے پاس قابل ذکر ادارے موجود نہیں ہے، اور جو ادارے موجود ہیں وہ ہماری ضروریات کی تکمیل کے لئے ناکافی ہیں۔ ملکی سطح پر ہمارے پاس کوئی ایسا تھنک ٹینک نہیں ہے جو نوجوان نسل کی ذہن سازی کرے اور انہیں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے ابھارے۔نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا تعلیمی معیار اور اوسط دن بدن گھٹتا چلا گیا۔  

ہندوستانی مسلمانوں کی اس صورتحال پر بے شمار قائدین، مفکرین، دانشوران اور سیاسی لیڈران  نے آنسو بہائے ہیں۔ ملکی اور ریاستی سطح پر اعداد و شمار کو پیش کیا ہے۔ اس کمزوری اور کمی کو دور کرنے کے طریقے بتلائے ہیں۔ سیمینار اور کانفرنسز منعقد کرائے گئے ہیں لیکن عملی طور پر، زمینی سطح پر کام کرنے والے اور قوم کے نوجوانوں کے لئے عصری علوم کی راہ کو آسان بنانے والے انگلیوں پر شمار کیے جاسکتے ہیں۔  جن لوگوں نے خاموشی کے ساتھ علمی میدان میں بے مثال کارنامے اور خدمات انجام دی ہیں ان میں ایک نمایاں نام امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دادا (مولانا محمد علی مونگیری) والی فراست اور والد (مولانا منت اللہ رحمانی) جیسی شجاعت سے نوازا تھا۔ آپ نے مسلمانوں کی زبوں حالی اور ملک میں آنے والے مسائل کو بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا، اللہ نے آپ کو ماہر قانون، ماہر تعلیم کے ساتھ نباض وقت بھی بنایا تھا۔ بہار کی مجلس عاملہ میں رہتے ہوئے آپ نے ہندوستانی مزاج و مذاق کو خوب اچھے سے جانچا اور پرکھا تھا۔ مختلف میدانوں کے ماہرین سے مل بیٹھنے کے گہرے اثرات آپ پر مرتب ہوئے تھے۔ آپ کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ اگر مسلم قوم کے تعلیمی معیار کو بلند نہیں کیا گیا تو یہ قوم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی ہے، بلکہ جو رہا سہا وقار اور ملی شناخت ہے اسے بھی بچانا دشوار ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں ایک اہم مسئلہ تعلیمی معیار کو سدھارنے کے لئے  مسلم نوجوانوں کو  مواقع فراہم کرنے اور انہیں  کورسیز کے لیے تیار کرنے کا تھا۔  خواہشمند طلباء کی عصری علوم میں راہنمائی اور انہیں دینی ماحول میں رکھ کر تیار کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا، ان حالات کو دیکھتے ہوئے   آپ نے 1996 میں رحمانی فاؤنڈیشن قائم کیا۔

رحمانی فاؤنڈیشن

رحمانی فاؤنڈیشن کے قیام کا اصل مقصد خدمت خلق ہے، اور خدمت خلق کے جذبے کے تحت رحمانی فاؤنڈیشن نے بہت قلیل عرصہ میں کئی اہم کارنامے انجام دیئے ہیں۔ یہاں مذہب سے قطع نظر انسانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی بہتری کے لئے کار خیر کئے جاتے ہیں۔ رحمانی فاؤنڈیشن کا تعلیم و تعلم کے حوالے سے قابل قدر کارنامہ ہے۔

رحمانی مکتب: 2004 میں رحمانی فاؤنڈیشن کے تحت مسلم بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت اور انہیں بنیادی تعلیمات سے آراستہ کرنے کے لئے مکاتب کے قیام کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس تحریک کے زیر اثر مونگیر ضلع میں تقریبا دو سو مکاتب کا قیام عمل میں آیا۔ ان مکاتب کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ بچے اور بچیاں جو غربت یا عدم سہولت کی بنا پر قرآن کی تعلیم سے محروم تھے ان کو سنہرا موقع فراہم ہوگیا۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء بھی اس سے مستفید ہوئے۔  

  رحمانی 30

اس ادارہ کے تحت آپ نے مسلمان بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے تیار کرنے کا منصوبہ بنایا۔ آپ بیجا نمود و نمائش اور اشتہار بازی سے گریز کرتے تھے، آپ قدیم صالح جدید نافع کے پابند تھے۔ آپ نے رحمانی فاؤنڈیشن کے تحت 2008 میں مکمل خاموشی کے ساتھ رحمانی 30 کے مفید منصوبے کو زمینی سطح پر اتارا۔ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ اور قیاس از بعید منصوبہ تھا۔ جس اعلیٰ تعلیم کی کمی کا رونا ہمارے قائدین آزادی ہند کے بعد سے روتے آرہے تھے لیکن ان اعلیٰ تعلیم کے حصول کا کوئی منصوبہ نہیں تھا اور نہ اس جانب خاطر خواہ توجہ دی گئی تھی، اُس معیاری اور اعلی تعلیم کا نظم، مکمل دینی ماحول میں،  بہار جیسے پسماندہ صوبہ میں ایک (مولوی نما) شخصیت مولانا محمد ولی رحمانی نے، بے مثال ادارہ کی بنیاد رکھ کر کردیا تھا۔ایک ایسا ادارہ جس نے ملک کے مسلم طلباء میں امید کی نئی کرن پیدا کردی اور جن کورسیز کو وہ اپنے خواب سمجھتے تھے اب وہ حقیقت کا روپ دھار کر ان کے سامنے موجود تھا۔ مولانا ولی رحمانی کے لئے یہ منصوبہ اتنا آسان نہیں تھا، اس کام کے لئے آپ نے بہار کے سابق ڈی جی پی اور سوپر 30 کے مشترک بانی جناب ابھیا نند کا تعاون حاصل کیا۔ ان کی شرائط کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہر طرح سے ان کا تعاون کرنے کا عزم کیا، اسی عزم مصمم اور نیک نیتی کا اثر ہے کہ اللہ نے بہت کم دنوں میں رحمانی 30 کو کامیابی و کامرانی سے نوازا ہے۔   ٹائمز آف انڈیا کے سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر جناب محمد وجیہ الدین صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں بہار کے سابق ڈی جی پی جناب ابھیانند سے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک پولس والا ایک مولوی کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہو گیا۔ ابھیانند صاحب نے جواب دیا کہ میرے پورے کیریئر میں یہ پہلے مولوی تھے جو میرے پاس اس مقصد سے آئے تھے کہ میں مسلم بچوں کو آئی آئی ٹی۔ جے ای ای کی تیاری میں مدد کروں۔ علاوہ ازیں، مولانا ولی رحمانی صاحب نے میری متعین کردہ شرائط کو تسلیم کیا اور پھر ہم دونوں ایک ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہوگئے۔  

رحمانی 30 کا یہ پروگرام نہایت کامیاب رہا اور اب بفضلہ تعالیٰ ملک کے تین صوبوں میں جاری ہے۔ اب آئی آئی ٹی۔ جے ای ای کے علاوہ میڈیکل، لاء اور سی اے وغیرہ کی تیاری بھی کرائی جارہی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ رحمانی 30 کا ریزلٹ اول دن سے نہایت کامیاب رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رحمانی 30 اس وقت ملک کے بہترین کوچنگ سینٹرز میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں ماہر فن اساتذہ اور باصلاحیت افراد کی زیر نگرانی مکمل دینی و اسلامی ماحول میں طلباء کو تیار کرایا جاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کا سہانا خواب جسے آزاد ہندوستان میں مسلمان برسوں سے دیکھ رہے تھے مولانا ولی رحمانی کے ہاتھوں اللہ نے اس کام کا آغاز کرایا تھا۔

امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب پر عمر کے اخیر دور میں بھی ذمہ داریوں کا بوجھ تھا۔ قوم کے نت نئے مسائل اور گردش ایام نے آپ کو فرصت کے لمحات سے محروم کر رکھا تھا۔ ان مصروفیات اور ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے آپ نے اپنی حیات میں ہی رحمانی فاؤنڈیشن کی ذمہ داری اپنے لائق و فائق فرزند جناب فہد رحمانی کے سپرد کردیا تھا۔ امید ہے موصوف اپنے والد کے اس تاریخی کارنامہ کو مزید نافع بنائیں گے۔ جس طرح مولانا ولی رحمانی صاحب نے  اپنے سلف کی روایات کو باقی رکھا ہے آپ کے خلف ان روایات کے سچے امین ثابت ہوں گے۔ آپ کے مشن کو آگے بڑھائیں گے اور ان کے دائرہ کار کو مزید استحکام بخشیں گے۔

بی ایڈ کالج مونگیر

 مولانا ولی رحمانی صاحب نے تعلیم و تعلم کے باب میں کامیابی کی جانب مزید ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے "بی ایڈ کالج” قائم کیا۔موجودہ دور میں پرائمری سطح سے لے کر اعلی تعلیم کے لئے تربیت یافتہ اساتذہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ٹریننگ کے بغیر  اسکول و کالج میں تقرری ممکن نہیں ہے، لیکن ایسے ادارے  جہاں مسلم طلباء بآسانی اس کورس کی تکمیل کرسکیں بہت کم تعداد میں پائے جاتے ہیں۔اس کمی کو دور کرنے اور تعلیم یافتہ طبقہ کو بہتر سے بہتر موقع فراہم کرنے کے لئے یہ سنہرا اور فائدہ مند قدم اٹھایا گیا۔ بفضلہ تعالی، اب تک یہ ادارہ اپنے مشن میں کامیاب ہے اور طلباء کی کثیر تعداد یہاں سے مستفید ہورہی ہے۔   

 ہمارے ملک ہندوستان میں تعلیم کا نظام افراط و تفریط کا شکار ہے۔ متمول گھرانے کے بچے مہنگی فیس ادا کرکے معیاری پرائویٹ اسکول میں داخل ہوجاتے ہیں، جبکہ غریب گھرانے کے معصوم تعلیم جیسے زیور سے آراستہ ہونے کے لئے در بدر بھٹکتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کا نظام تعلیم ناقابل بیان ہے۔ تعلیم کے نام  پر ضیاع وقت کے سوا ان اداروں میں اور کچھ نہیں ہوتا ہے۔ یہ استثنائی صورت ہے کہ کسی سرکاری اسکول میں تعلیمی معیار اس قدر بلند ہو کہ عوام بخوشی اپنے بچوں کے روشن مستقبل کا سہانا خواب دیکھتے ہوئے انہیں داخل کرائے۔ انہیں استثنائی صورتوں میں مرکزی حکومت کے تحت چلنے والا ادارہ نوودے ودیالیہ ہے۔ نوودے ودیالیہ کا تعلیمی، رہائشی اور دیگر لوازمات کے معیار حد درجہ بلند اور بہتر ہے۔ یہاں بغیر کسی فیس کے طلباء کو معیاری تعلیم سے سنوارا جاتا ہے۔ لیکن ان اداروں میں داخلہ کے لئے مقابلہ جاتی امتحان میں شریک ہونا ہوتا ہے جس کے لئے پانچویں کلاس کے طلباء کے درمیان امتحان منعقد کرایا جاتا ہے اور کامیاب ہونے والے طلباء بارہویں تک مکمل تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ قابل افسوس بات ہے کہ اس نظام سے یا تو ہماری قوم نابلد ہے یا پھر وہ اپنے بچوں کو اس کے لئے تیار نہیں کرپاتے ہیں۔ مولانا ولی رحمانی صاحب نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے چوتھی اور پانچویں کلاس کے طلباء کے لئے کوچنگ سینٹر قائم کرنے کا ارادہ کیا تھا، جہاں طلباء کو نوودے ودیالیہ کی تیاری کرائی جائے، لیکن افسوس کہ آپ کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔

2015 میں امیر شریعت منتخب کئے جانے کے بعد مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے بہار اڑیسہ جھارکھنڈ کے مسلمانوں کی تعلیمی حالت زار کو سدھارنے کے لئے تینوں صوبوں میں اسکول کے نظام کے قیام کا فیصلہ کیا۔ آپ کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ ان تینوں صوبوں کے ہر ضلع میں کم از کم ایک  ایک عدد سی بی ایس سی اسکول امارت شرعیہ کے تحت قائم کئے جائیں۔ علاوہ ازیں ان تینوں صوبوں میں ایک ایک میڈیکل کالج قائم کئے جائیں۔ مسلمانوں کی زبوں حالی کی ایک اہم وجہ زمانہ  کی رفتار سے ہم آہنگ نہ ہونا بھی ہے۔ مولانا محمد ولی رحمانی صاحب جدید سائنسی علوم کے ذریعہ اس خلا کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ ملک کے مین اسٹریم میں مسلم قوم کی نمائندگی کے خواہاں تھے۔ آپ نسل نو کی اس انداز سے تربیت کرنا چاہتے تھے جن کے پاس دینی علوم کی روشنی سمیت دنیاوی علوم کی شمع بھی ہو۔ جو مسجد میں امامت کی فرائض انجام دینے کے ساتھ سائنسی میدان میں بھی قیادت کا فریضہ انجام دے سکے۔ اسی مشن کے تحت کچھ دنوں قبل رانچی میں ایک اسکول کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔ امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کا یہ ڈریم پروجیکٹ تھا۔ آپ اسے پایہ تکمیل کو پہنچانا چاہتے تھے لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور آپ اہل بہار پر یتیمی کی چادر چڑھا کر رخصت ہو گئے۔ ہم پر امید ہیں کہ امارت شرعیہ اپنے سابق امیر شریعت سابع اور قوم کے بے لوث خادم کے اس حسیں خواب کی تعبیر کے لئے پر عزم رہے گی۔ قوم کے اس مفکر،  قائد، مدبر، راہبر و راہنما کے لئے  سب سے بہترین خراج عقیدت یہ ہے کہ ان کے منصوبوں اور خوابوں کو زمین پر حقیقی معنوں میں اتارا جائے۔ ان کے ادھورے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ ان کے تعلیمی اور دیگر مشن کو اسی فعالیت کے ساتھ زندہ رکھا جائے۔  

علاوہ ازیں آپ نے تعلیمی بیداری کانفرنس کے ذریعہ تینوں صوبوں میں مسلمانوں کو علم کی اہمیت و افادیت سے روشناس کرایا۔ پیرانہ سالی اور ضعف و نقاہت کے باوجود آپ بنفس نفیس پروگرام میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ امارت شرعیہ کے تحت رفاہی کام کاج اور دینی علوم کے ساتھ آپ نوخیز بچوں کی تربیت کے لئے بھی فکر مند تھے۔ اس سمت میں آپ نے مکاتب کے نظام کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی جانب بھی پہل کی تھی۔ آپ نے تن تنہا مختلف جہات میں مختلف علمی تحریکات کو شروع کیا تھا اور آج اس کے دور رس نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ 

حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ایک جہان دیدہ صاحب بصیرت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے اپنے ادارہ جامعہ رحمانی مونگیر میں بھی قدیم طرز سے ہٹ کر جدید اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے عربی زبان و ادب اور کمپیوٹر سائنس کے علاوہ علم حساب وغیرہ کو بھی شاملِ نصاب کیا ہے۔ جامعہ رحمانی مونگیر کا "دارالحکمت” اس کی بہترین مثال ہے جہاں عربی زبان میں تعلیم و تعلم کا نظم کیا گیا ہے۔ دارالحکمت کے تحت  پانچ سالہ حفظ کے نصاب کی زبان عربی ہے، اس کے دور رس نتائج برآمد ہورہے ہیں اور حفظ کرنے والے طلباء میں عربی زبان کی استعداد پیدا ہورہی ہے۔ آپ کا نظریہ  تھا کہ مسلمان ملک کے ہر شعبے جات میں بحیثیت مسلمان نمائندگی کریں۔ تعلیمی میدان میں آپ کی زیرکی اور دانائی نے مسلمانان ہند کو ایک سمت عطا کی ہے، ایک راہ دکھائی ہے جس پر چل کر اور جس کی اتباع کرتے ہوئے اعلی تعلیمی میدان میں مسلمانوں کے خلا کو پُر کیا جاسکتا ہے۔ آزاد ہندوستان میں آپ کی شخصیت مسلمانان ہند کے لئے اعلیٰ تعلیمی میدان میں نقش اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی شایان شان بدلہ عطا فرمائے اور آپ کے ذریعہ قائم کردہ اداروں کو ہمیشہ امت مسلمہ کے لئے نافع بنائے رکھے۔

 

 

Related Posts

2 thoughts on “حضرت مولانا ولی رحمانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے