جہیز معاشرتی زندگی کا محبوب ناسور

 

جہیز معاشرتی زندگی کا محبوب ناسور

کچھ دنوں قبل سوشل میڈیا پر مختلف زاویے سے ایک تصویر گردش کرتی ہوئی نظر آئی۔ مختلف ذوق کے افراد نے مختلف طرح کے تبصروں سے اس  تصویر میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔بعض افراد نے اسے معاشرہ کی موت قرار دیا ہے، جبکہ بعض نے اس تصویر کو "مرد حضرات” کی غیرت کا جنازہ گردانا ہے۔ کچھ اہل فکر نے اسے "عورت” کی بے بسی سے تعبیر کیا ہے اور کچھ اہل دانش نے اسے تصویر نہیں بلکہ  نام نہاد مہذب سماج کا حقیقی رنگ بتلایا ہے۔ چند افراد نے اسے اخلاقی دیوالیہ پن تصور کیا ہے اور چند کے نزدیک یہ تربیت کا فقدان ہے۔ میرے اندازہ کے مطابق تصویر شیئر کرنے والوں میں نوجوان طبقہ پیش پیش رہا ہے۔ نوجوان بچے اور بچیوں نے دل کھول کر اس تصویر پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ یہ تصویر کیا ہے! ہمارے معاشرہ کی جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس کے خلاف بولتا ہر کس و ناکس ہے، لیکن افسوس کہ اس گھناؤ نے کام میں تقریبا ہر کوئی ملوث ہے۔ یہ ہماری بے بسی کی عکاس ہے۔ ہمارے لالچ اور مردہ ضمیر کا درپن ہے۔ ہماری انسانیت کا جنازہ ہے۔ ہمارے وجود پر زور دار طمانچہ ہے۔ مسلم معاشرہ کے لئے تازیانہ عبرت ہے۔ ہمارے حرص و طمع کی بہترین مثال ہے۔ ہمارے خفتہ احساس کے لئے زناٹے دار تھپڑ ہے۔ اور ہماری معاشرتی زندگی کی حقیقت ہے۔ جہیز ہماری معاشرتی زندگی کا ایسا محبوب ناسور ہے جس سے پریشان ہر کوئی ہے لیکن اس سے نجات کی سبیل پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ 

ایک نئی نویلی دلہن، شادی کا سرخ جوڑا زیب تن کئے، زیورات سے لدی پھندی، ہاتھوں میں مہندی سجائے،  اپنے ناتواں کندھوں کے سہارے ایک بیل گاڑی کو دھکیل کر  اس راستہ سے گزر رہی ہے جسے پھولوں سے سجایا گیا ہے۔  پھول سے لدے ہوئے اس راستے سے جو ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے، اس گاڑی میں جہیز کے ساز و سامان سمیت اس کا شوہر نامدار بھی نہایت منظم اور مہذب انداز میں ، سہرا سجائے موجود  ہے۔ یہ جہیز کا سامان نہیں دراصل وہ قیمت ہے جو اس شوہر کی طے کی گئی ہے۔ وہ ضروریات زندگی ہے جس کو خریدنے کی استطاعت اور ہمت اس شوہر میں نہیں تھی۔ وہ ساز و سامان ہے جن کے سہارے وہ اپنی آن بان شان کو ظاہر کرے گا۔ وہ متاع حیات ہے جو اس کی بے حسی، ضمیر فروشی، ذلت و نکبت، بے غیرتی، بے مروتی، بد اخلاقی، مردہ دلی، لالچ اور حرص و طمع کی جیتی جاگتی اور  منھ بولتی تصویر ہے۔ یا پھر یہ وہ اشیاء زندگی ہے جس کے بعد بیٹی اپنے ماں باپ کے لئے پرائی ہوجاتی ہے۔ 

کیا جہیز  سنت نبوی سے ثابت ہے؟

بعض لوگوں کا استدلال ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو شادی کے موقع ضروریات زندگی کے کچھ سامان فراہم کئے تھے۔ اس واقعہ سے بعض لوگ جہیز کے وجود کی بات کرتے ہیں اور استدلال میں اسے زور و شور کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس واقعہ کا دوسرا پہلو ، جو کہ اصل ہے، اسے فراموش کردیتے ہیں۔  حضرت فاطمہ کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور حضرت علی آپ ﷺ کی کفالت میں تھے۔ ایسی صورت میں بحیثیت سرپرست اور ذمہ دار آپ ﷺ نے حضرت علی کو سامان زندگی عطا فرمائے تھے تاکہ عائلی زندگی کی شروعات آسان ہو۔ بحیثیت سرپرست آپ ﷺ نے اپنے ماتحت اور اپنی کفالت میں رہنے والے حضرت علی کی ضرورتوں کو پورا کیا تھا۔ اس واقعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ سرپرست حضرات کو چاہئے کہ اپنی استطاعت کے بقدر اپنے بچے کی ضرورتوں کو پورا کرے، اس کے بعد شادی کا فیصلہ لیں۔ یہ ماں باپ اور سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اسباب کا انتظام کریں جو شادی کے لئے ضروری ہے۔  قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ شادی وہ انسان کرے جس میں خرچ اٹھانے کی استطاعت ہو۔ اگر وہ استطاعت نہیں رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ روزہ رکھے ۔ اس طرح کی کوئی مثال موجود نہیں ہے کہ لڑکی کے سرپرست سے مطالبہ کیا گیا ہو کہ ساز و سامان کا بندوبست کریں اور شادی کے موقع پر وتمام ضروریات زندگی ہونے والے شوہر کے گھر بھیج دیا جائے۔ 

جہیز کا اطلاق کن چیزوں پر ہوتا ہے

بعض لوگوں کے نظریہ کے مطابق، جہیز کا اطلاق ان اشیاء پر ہوتا ہے جن کا مطالبہ شادی سے قبل لڑکی کے سرپرست اور ذمہ داران حضرات سے کیا جائے۔ وہ اشیاء جو بغیر طلب اور بغیر خواہش کے مل جائے ان کا اطلاق جہیز پر نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ بعض افراد کا ماننا ہے کہ فرنیچر اور دیگر ضروریات زندگی (خواہ مطالبہ ہو یا نہ ہو) وہ جہیز میں شامل نہیں ہے۔ ان افراد کے اعتبار سے زندگی گزارنے کے لئے ان ساز و سامان کا ہونا ضروری ہے، ضرورت ایجاد کی ماں ہے، اور ضرورت ممنوعات کو مباح بنادیتی ہے۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو کسی بھی طرح کے سامان کو جہیز نہیں سمجھتا ہے، ان کے نزدیک جہیز کی فہرست میں نقد رقوم اور گاڑی کے سوا کچھ اور شامل نہیں ہے۔ 

اسباب و وجوہات

جہیز کے اسباب و وجوہات کیا ہیں؟ جہیز کا جو چلن برصغیر میں پایا جاتا ہے، وہ دیگر ممالک میں موجود نہیں ہے۔ یہ در اصل ایک غیر مذہبی رسم ہے جو ہندوستان کے رگ و ریشہ میں سرایت کرگئی ہے۔ ایک ذہنی تصور ہے جو دیگر افسانوی کہانیوں کی طرح دلوں میں گھر کر گئی ہے۔ غیر اسلامی رسم ہے جس کا مذہب سے دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہندوستان کی قدیم روایات میں سے جو بُرائیاں ہندوستانی مسلمانوں میں داخل ہوئی ہیں ان میں جہیز بھی ہے۔اسلام کے ابتدائی ایام میں اس چیز کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا ہے۔

مذہب اسلام نے عدل و انصاف کا ایک معیار قائم کیا ہے۔ ایک ایسا معیار جس کی نظیر قوانین عالم میں مفقود ہے۔ مذہب اسلام نے احکامات، فرائض و نوافل اور جزا و سزا کے باب میں کوئی جنسی امتیاز نہیں برتا ہے۔ ہر دو جنس کو عدل و انصاف کے ساتھ صرف ان امور کا مکلف بنایا ہے جو اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج اور دیگر عبادات میں دونوں جنس کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔ جس طرح مرد ان امور کی انجام دہی کے لئے جزا و سزا کا مستحق ہے بعینہ اسی طرح عورت بھی اوامر و نواہی کی انجام دہی میں جزا و سزا کی مکلف ہے۔ مذہب اسلام میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو انسانی فطرت اور عدل و انصاف کے اعلی معیار پر قائم نہ ہو۔ یہ مذہب اسلام کا طرہ امتیاز ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کے لئے(خواہ شیر خوار بچہ ہو یا بستر مرگ پر دراز بوڑھا یا پھر جوان) حقوق متعین کئے ہیں۔ یہ حقوق ماں کی گود سے شروع ہوتے ہیں اور قبر کی گود تک بلکہ اس کے بعد بھی باقی رہتے ہیں پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ مذہب اسلام اتنی اہم اور بنیادی ضرورت جس پر نسل انسانی کا دار و مدار ہے اسے تشنہ چھوڑ دیتا اور مسئلہ وراثت اور میراث جس کے بغیر امن و سکون میں خلل کا خدشہ تھا اسے ادھورا رہنے دیتا۔  مذہب اسلام نے میراث کی تقسیم کرکے ہر کسی کو اس کا مکمل حق دیا ہے اور اس سے کسی کو محروم نہیں رکھا ہے۔ میراث کے باب میں خیانت کرنے والے والوں کے متعلق سخت ترین وعیدیں قرآن مجید میں موجود ہے۔ اسلام کسی دوسرے کے مال کو ناحق استعمال کرنے کو حرام قرار دیتا ہے۔ اسلام نے ہر عورت کے  لئے، بحیثیت بیٹی، بہن، بیوی اور ماں الگ الگ صورتوں میں وراثت کو متعین کیا ہے۔ ایک باپ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو اس کا حق دے۔ جس طرح باپ کی میراث میں بھائی شریک ہوتے ہیں بہنیں بھی ان میں حصہ دار ہوتی ہیں۔ 

جہیز کی لعنت اور ہمارا معاشرہ

ہمارے معاشرہ کا یہ دردناک پہلو ہے کہ ہم فرض سے کنارہ کشی اختیار کرکے حرام اور ناجائز کاموں میں اسراف اور دکھاوے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ وہ چیز باعث فخر کیسے ہوسکتی ہے جس کی بنیاد فرض کے ترک پر ہو۔ جہیز کے رواج کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عموما لوگ اپنی بیٹیوں کو ان کا واجبی حق نہیں دیتے ہیں۔ اگر بچیوں کو ان کے واجبی حقوق ملنے لگ جائیں اور معاشرہ میں اس کی داغ بیل ڈالی جانے لگے تو ناجائز مطالبات کا سد باب ہوسکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب فرائض اور سنت سے رو گردانی ہوگی تو اس کی جگہ بدعات و خرافات اور ناجائز کام لے لیں گے۔  ہمارے معاشرہ میں بھی یہی ہوا کہ ہم نے فرض سے روگردانی کی تو ہم ناجائز کاموں میں ملوث ہوگئے۔ اگر ہم دوبارہ اللہ کے حضور معافی مانگ کر اور عہد و پیمان کرکے اس کی پناہ میں آئیں گے تو یقینا اللہ ہمیں اس مہلک مرض سے نجات دے دیگا، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم خلوص نیت کے ساتھ اس کے احکامات پر عمل کریں۔

کیا بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہے؟

بیٹی کے تعلق سے بعض غلط، نامناسب اور غیر مذہبی اصطلاحات ہمارے معاشرہ میں رائج ہے۔ یہ ایک معاشرتی بیماری ہے جس سے نجات ضروری ہے۔ ہمارے معاشرہ میں ایک عام تصور یہ ہے کہ”بیٹی پرایا دھن ہوتی ہے”، اس تصور کی وجہ سے شادی کے بعد والدین کی جانب سے اپنی ہی بیٹی کے تئیں خیالات بدل جاتے ہیں۔ بیٹی سے راہ و رسم کمزور پڑ جاتے ہی، میل جول اور ملاقات کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔ بیٹی کی ضروریات زندگی اور اس کی آرائش و زیبائش کے متعلق بے فکر ہوجاتے ہیں۔ معاملہ اس حد تک خراب ہے کہ والدین یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔ بحیثیت باپ کیا صرف یہی ذمہ داری ہے کہ اس کی شادی کردی جائے اور اس کے بعد رابطہ، تعلق اور راہ و رسم سب کچھ ختم کرلیا جائے۔ ان خیالات کی وجہ سے لڑکی بھی ہمیشہ اس شش و پنج میں رہتی ہے کہ معلوم نہیں شادی کے بعد ہمارے گھر والے ہمارے ساتھ کیسا برتاؤ کریں گے اور کس قسم کا رابطہ رکھیں گے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ لڑکی تمام حالات سے واقف ہونے اور اپنے والدین کی پریشانیوں سے باخبر ہونے کے باوجود اپنی شادی میں اپنے مطالبات  سامنے رکھتی ہے۔ اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آج کے بعد ہمارا اس گھر سے رابطہ منقطع ہوجائے گا۔ اس رسم بد کو توڑنے کی ضرورت ہے، اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی ہی اولاد کو "پرایا دھن” بنا دینا انصاف نہیں ہے۔ اپنی ہی بیٹی کو اس کے حقوق سے محروم کرنا عدل کا تقاضا نہیں ہے۔ اپنی ہی لخت جگر سے شادی کے بعد رشتہ ختم کرنا یا کمزور کرلینا دانشمندی نہیں ہے۔ 

جہیز کی لعنت کا ذمہ دار کون؟

کیا جہیز کے مطالبات اور جہیز کی رسم میں صرف "مرد حضرات” مورد الزام ہیں۔ اگر معاشرتی زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ "مرد حضرات” کے ساتھ ساتھ اس جرم میں "خواتین” بھی برابر کی شریک ہیں۔ معاشرہ میں اپنی جھوٹی شان کا مظاہرہ کرنے کے لئے عورتوں کی جانب سے مطالبات کی طویل فہرست تیار کی جاتی ہے۔ محلے کے دیگر گھروں کا جائزہ لے کر اور دیکھ کر، فلاں کی بہو اتنا سامان لے کر آئی ہے، فلاں نے اپنی بیٹی کو جہیز میں یہ سامان دیا ہے، اس لئے ہمیں بھی چاہئے اور ہم بھی اپنی بیٹی کو دیں گے اس طرح کے ناجائز مطالبات رکھے جاتے ہیں۔ یہ ایک معاشرتی اور سماجی مرض ہے اور اس مرض میں ہر دو جنس مبتلا ہے۔ کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا انصاف نہیں ہے۔ 

جہیز کی لعنت سے چھٹکارا کے لئے سنت نبوی پر عمل ضروری ہے

یہ ایک ایسا مہلک مرض ہے، جس کی تکلیف سے ہر کوئی گزر رہا ہے لیکن اس کے علاج کے لئے مناسب اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔ اس بیماری سے ہر کوئی پریشان ہے لیکن کوئی اس سے نجات حاصل نہیں کرنا چاہتا ہے۔ ہر ماں باپ کو معلوم ہے کہ بیٹے کی شادی میں وصول کرنا ہے تو بیٹی کی شادی میں ہم سے بھی وصول کیا جائے گا۔ ایک شادی کو انجام دینے میں عمر بھر کی کمائی اور بسا اوقات زمین جائیداد تک  فروخت کرنے کی نوبت آجاتی ہے۔ والدین اپنے چہروں پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے زخمی دلوں کے ساتھ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہیں، لیکن اس کے بعد بھی سماج اور معاشرے کے طعن و تشنیع کا نشانہ بننے کا خوف لگا رہتا ہے۔ اس بیماری سے نجات کا سب سے بہتر اورآسان طریقہ یہی ہے کہ بیٹیوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں۔ انہیں شریعت کے متعینہ  حقوق سے محروم نہ کریں۔ جب شریعت پر عملدرآمد ہوگا تو منجانب اللہ آسانیاں پیدا ہوں گی۔ اللہ کی مدد اور نصرت حاصل ہوگی۔ شادی میں خیر و برکت کا ظہور ہوگا اور زندگی خوشگوار گزرے گی۔ یہ ہمارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں آسانیاں ہوں۔ شادی بیاہ کو آسان بنایا جائے، غیر مذہبی رسم و رواج سے اجتناب کیا جائے  ہمارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ نکاح کو آسان بناؤ۔ اپنے نبی ﷺ کے قول پر عمل کریں، اللہ کی مدد شامل حال رہے گی۔ 

جہیز کی شرعی حیثیت 

جہیز کی لعنت نے بے شمار دوشیزاؤں کو موت کے حوالے کیا ہے۔ اور بے شمار بچیاں جہیز کی لعنت کی وجہ سے مناسب رشتہ کی راہ دیکھ رہی ہے لیکن غربت و بے بسی اور سامان جہیز کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مناسب رشتوں سے محروم ہیں۔ ایسی صورت میں یہ جاننا ضروری ہے کہ جہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ کیا جہیز لینا اور دینا جائز ہے نیز وہ لوگ جو بلا کسی خوف و خطر کے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں اس کا شرعی حکم کیا ہے۔ اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند اور بنوریہ ٹاؤن کا فتوی قابل مطالعہ ہے۔

 جہیز کی شرعی حیثیت اور دارالعلوم دیوبند

والدین کی طرف سے اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے جو سامان اور تحائف دیے جاتے ہیں اُسے ”جہیز“ کہتے ہیں۔ الجہاز: ما زفت المرأة بہا إلی زوجہا من الأمتعة (قواعد الفقہ، ص: ۲۵۵، ط: دار الکتاب) والدین اپنی حیثیت کے مطابق بیٹی کو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں، پس اگر نمود ونمائش کے بغیر والدین بیٹی کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دیں تو یہ بلاشبہ مباح ہے، لیکن لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ کیا جانا قطعی حرام ہے ألا لا یحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ (مسند أحمد: ۵/ ۱۱۳، ط: بیروت) اور لڑکی والوں کا نمود ونمائش کے لیے اپنی حیثیت سے بڑھ کر دینا ناجائز ہے، لیکن یہ بات قابل لحاظ ہے کہ موجودہ زمانے میں جہیز کا جس طرح رواج ہے وہ ایک بری رسم کی شکل اختیار کرگیا ہے، امیر وغریب ہرایک کے لیے لازمی درجہ کی چیز ہوگئی ہے، جس میں لڑکی والوں کی طرف سے طول طویل فہرست کی تکمیل کی جاتی ہے، اور اس کی عورتوں میں مرد اور کہیں مردوں میں فخر ومباحات کے ساتھ تعریف وتحسین کے لیے نمائش کی جاتی ہے اورمعاشرے میں اُسے ضروری سمجھ کر نہ دینے والوں کو گری نظر سے دیکھا جاتا ہے، اس لیے لوگ نام آوری یا عزت بچانے کے لیے اپنی حیثیت سے زائد دینے کی کوشش کرتے ہیں، یا غریب لوگ مقروض ہوتے ہیں اور کبھی سود وزکاة کی رقم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پس مروجہ جہیز کی رقم اپنے لوازمات کے ساتھ ایک قبیح رسم بن گئی ہے، لہٰذا مروجہ طریقے پر اُسے دینے سے گریز کیا جائے۔ خوش دلی سے حیثیت کے مطابق والدین جو دینا چاہیں ضروری چیزیں دینے پر اکتفاء کریں، صلہ رحمی کے لیے آئندہ زندگی بھی باقی ہے۔


جہیز کی شرعی حیثیت اور بنوریہ ٹاؤن

جہیز ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں۔ (۱) اس لیے اگر والدین بغیر جبر و اکراہ کے اور بغیر نمود ونمائش کے لڑکی کو تحفہ دیتے ہیں تو  یہ رحمت اور محبت کی علامت ہے۔ ایسی صورت میں بچی کے لیے جہیز لینا جائز ہے، اور بچی ہی جہیز کے سامان کی مالک ہوگی۔اور اگر جہیز کے نام پر لڑکے والوں کا مطالبہ کرنے پر یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے محض رسم پوری کرنے کے لیے لڑکے والوں کو سامان دینا پڑے اور مذکورہ سامان دینے میں بچی کے والدین کی رضامندی بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں لڑکے والوں کے لیے ایسا جہیز لینا ناجائز ہے۔ اور اگر ایسا جہیز بچی کے حوالہ کر بھی دیا گیا تو بچی ہی اس کی مالک ہوگی اور اس کی اجازت کے بغیر مذکورہ جہیز کے سامان کو لڑکے والوں کے لیے استعمال کرنا حلال نہیں ہوگا۔

 

 

Related Posts

20 thoughts on “جہیز معاشرتی زندگی کا محبوب ناسور

  1. جہیز کی نامعقول محبوبیت اور اس کی محبوب ناسوریت پر جتنا عمدہ طنز آپ نے کیا ہے اور اس کی باریک گھتیوں کی گرہ کشائی کی ہے ۔۔۔۔۔
    وہ آپ کے قلم کی جولانیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔۔۔۔۔

  2. السلام علیکم و رحمۃ اللہ! محترم جناب اسجد عقابی صاحب. آپ نے معاشرہ کے ایک ناسور پر زبردست تحریر فرمایا. اللہ ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے. ماشاءاللہ
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ. محمد اسجد قاسمی وسئی

  3. السلام علیکم و رحمۃ اللہ! محترم جناب اسجد عقابی صاحب. آپ نے معاشرہ کے ایک ناسور پر زبردست تحریر فرمایا. اللہ ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے. ماشاءاللہ
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ. محمد اسجد قاسمی وسئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے