تہجد کی نماز: فضائل و برکات کا سرچشمہ

تہجد کی نماز: فضائل و برکات کا سرچشمہ

مذہب اسلام نے اپنے متبعین کو مختلف طریقوں سے عبادت کے لئے ابھارا ہے اور انہیں ترغیب دی ہے، تاکہ خدا کے یہ بندے زیادہ سے زیادہ اپنے رب کی رضا کے لئے جستجو کرے اور عبادات میں مشغول ہوکر اللہ رب العزت کی کبریائی بیان کرے، ان فضائل و برکات کے مستحق بنے جو اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے لئے مختص کر رکھا ہے، ان انعامات اور نوازشات کو حاصل کرنے والے بن جائیں جن کی خوبیاں قرآن و احادیث میں بکثرت موجود ہیں، علاوہ ازیں، جب بندہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ رجوع کرے گا تو اللہ تعالی سے تعلق بھی مزید مضبوط اور گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا”، یعنی بندہ مومن جب اللہ تعالی سے لَو لگائے گا، اس کی حمد و ثنا بیان کرکے اپنی ضرورتوں کو اس کے سامنے پیش کرے گا تو اللہ تعالی اس کی ضرورتوں کی تکمیل فرمائیں گے بلکہ اتنا زیادہ عطا فرمائیں گے جس کا ذہن انسانی احاطہ نہیں کرسکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے مختلف عبادات کے لئے مختلف انعامات اور ثواب کا وعدہ فرمایا ہے تاکہ بندہ مومن میں شوق و رغبت پیدا ہو، انہیں نفلی عبادتوں میں ایک اہم اور بنیادی عبادت تہجد کی نماز ہے۔ تہجد کی نماز کے فضائل و مناقب قرآن و حدیث میں مذکور ہے اور علماء اسلام نے ہمیشہ تہجد کی نماز کا اہتمام فرمایا ہے۔

تہجد کی نماز قرآن مجید کی روشنی میں

تہجد کی نماز اس لئے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ قرآن مجید میں بکثرت اس کے فضائل وارد ہوئے ہیں، اور اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو تہجد کے عوض بڑے بڑے انعامات کا وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

’’تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفاً وَّطَمَعاً وَّمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ۔‘‘

"اُن کے پہلو (رات کے وقت) اپنے بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈر اور اُمید (کے ملے جلے جذبات) کے ساتھ پکار رہے ہوتے ہیں، اور ہم نے اُن کو جو رزق دیا ہے وہ اُس میں سے (نیکی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں، چنانچہ کسی متنفس کو کچھ پتہ نہیں کہ ایسے لوگوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان اُن کے اعمال کے بدلے میں چھپا کر رکھا گیا ہے۔ ‘‘

اس آیت کے ضمن میں مفتی شفیع صاحب معارف القرآن میں لکھتے ہیں: "بستروں سے اٹھ کر دعاء میں مشغول ہوجانے سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک نماز تہجد اور نوافل ہیں جو سوکر اٹھنے کے بعد پڑھی جاتی ہے اور روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے”۔

آگے لکھتے ہیں: "مسند احمد، ترمذی نسائی وغیرہ میں حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھا۔ ایک روز میں دوران سفر صبح کے وقت آپ کے قریب ہوا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے کوئی ایسا عمل بتلادیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرے اور جہنم سے دور کرے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے ایک بڑی چیز کا سوال کیا مگر جس کے لئے اللہ تعالی آسان کردے اس کو وہ آسان ہوجاتی ہے، اور فرمایا کہ وہ عمل یہ ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، اور زکوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو، اور پھر فرمایا کہ لو اب میں تمہیں خیر یعنی نیکی کے ابواب بتلادیتا ہوں (وہ یہ ہیں کہ) روزہ ڈھال ہے جو عذاب سے بچاتا ہے اور صدقہ آدمی کے گناہوں کی آگ بجھادیتا ہے، اسی طرح آدمی کی نماز درمیان شب میں، اور یہ ارشاد فرمانے کے بعد قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت تلاوت فرمائی”۔

تہجد کی نماز احادیث کی روشنی میں

تہجد کی نماز کئی معنوں میں بڑی اہمیت اور فضیلت کی حامل ہے۔ احادیث مبارکہ میں کثرت و تواتر کے ساتھ آپ ﷺ کے واقعات مذکور ہیں جن میں آپ کے رات کی عبادتوں کا تذکرہ ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات میں اس قدر طویل قیام فرمایا کرتے تھے کہ قدم مبارک میں ورم آجاتا، ایک صحابی نے دریافت کیا: یا رسول اللہ "آپ کے تمام ماقبل اور مابعد کے گناہ معاف کردیئے گئے ہیں پھر اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں”، آپ ﷺ نے جواب دیا، کیا میں اللہ تعالی کا شکر گزار بندہ نہ بنوں”۔ (البخاري: 4836، مسلم: 2819)

حضرت علی سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: "جنت میں ایسے بالا خانے ہیں (جوآبگینوں کے بنے ہوئے معلوم ہوتے ہیں) اُن کے اندر کی سب چیزیں باہر سے نظر آتی ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ کن لوگوں کے لیے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اچھی طرح سے بات کریں، اور (غرباء ) کو کھانا کھلائیں اور ہمیشہ روزے رکھیں اور ایسے وقت میں رات کو تہجد پڑھیں، جب کہ لوگ سو رہے ہوں”۔ (ترمذی، ابن ابی شیبہ)

حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”تم رات کے جاگنے کو لازم پکڑو، کیوں کہ یہ تم سے پہلے صالحین اور نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور رات کا قیام اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب کا ذریعہ ہے اور گناہوں کے لیے کفارہ ہے، اور گناہوں سے روکنے اور حسد سے دُور کرنے والی چیز ہے”۔

تہجد کی نماز کا وقت

تہجد کی نماز کا وقت کیا ہے اور تہجد کی نماز کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے۔ کن اوقات میں تہجد کی نماز پڑھنا افضل ہے، اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کا فتوی پیش خدمت ہے:

نماز تہجد کا وقت، نماز عشاء کے بعد سے فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے تک ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص سونے سے پہلے بھی چند رکعتیں تہجد کی نیت سے پڑھ لے، تو تہجد ادا ہوجائے گی، البتہ سوکر اٹھنے کے بعد تہجد پڑھنا زیادہ افضل ہے کہ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا، طبرانی کی ایک روایت میں حضرت حجاج ابن عمرو کا قول نقل کیا گیا ہے کہ تہجد وہ نماز جس کو آدمی نیند کے بعد ادا کرے: إنما التہجد المرء یُصلي الصلاة بعد رقدة (کنز العمال) فقہاء نے لکھا ہے کہ جس شخص کا معمول آدھی رات سونے اور آدھی رات عبادت کرنے کا ہو، اس کے لیے افضل طریقہ یہ ہے کہ رات کے آخری حصہ میں نماز تہجد ادا کرے، مثلاً فجر کا وقت (صبح صادق) شروع ہونے سے گھنٹہ، پون گھنٹہ پہلے۔ اور جس کا معمول ایک تہائی عبادت کرنے اور دو تہائی سونے کا ہو، اس کے لیے بہتر ہے کہ ایک تہائی حصہ سونے کے بعد درمیانی حصہ میں نماز تہجد ادا کرے۔

بنوریہ ٹاؤن والے لکھتے ہیں: "تہجد کی نمازکے لیے افضل وقت کون ساہے؟ اس سلسلہ میں شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمدمدنی رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں: "صلوۃ تہجد کاوقت عشاء کے بعد سے صبح صادق تک ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے صحاح میں روایت موجودہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے شب میں بھی اوروسط شب میں بھی اورآخرشب میں تہجدپڑھی ہے۔مگرآخری ایام میں اورزیادہ تراخیرِ شب میں پڑھناوارد ہے،جس قدربھی رات کاحصہ متاخرہوتاجاتاہے برکات اوررحمتیں زیادہ ہوتی جاتی ہیں،اورسد س آخرمیں سب حصوں سے زیادہ برکات ہوتی ہیں۔تہجد ترک ہجود یعنی ترک نوم سے عبارت ہے،اس لیے اوقات نوم بعد عشاء سب کے سب وقت تہجدہی ہیں”۔’’حسن بصری فرماتے ہیں کہ نمازتہجد ہراس نمازپرصادق ہے جوعشاء کے بعدپڑھی جائے البتہ تعامل کی وجہ سے اس کوکچھ نیندکے بعد پرمحمول کیاجائے گا”۔

اس کاحاصل یہ ہے کہ نمازتہجد کے اصل مفہوم میں بعدم النوم ہوناشرط نہیں،اورالفاظ قرآن میں بھی یہ شرط موجودنہیں ،لیکن عموماً تعامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کا یہی رہاہے کہ نمازآخررات میں بیدارہوکرپڑھتے تھے اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی”۔

تہجد کی نماز بشرط بشاشت دو رکعت سے آٹھ رکعت کے درمیان جتنی توفیق ہو ادا کرنا چاہئے۔ البتہ اس بات کا خیال رہے کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیر دیا جائے۔

تہجد کی نماز اور ہمارے اسلاف

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ میں نے تہجد کی نماز سے زیادہ مشکل اور بھاری کوئی اور عبادت نہیں پائی ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ کوئی شخص اگر رات میں عبادت سے رہ جائے تو اس کے لئے دن میں گنجائش ہے اور اگر دن میں عبادت کرنے سے عاجز ہوجائے تو اس کے لئے رات میں گنجائش ہے۔ حضرت حسن بصری تہجد کی نماز کے متعلق فرماتے ہیں کہ بندہ جو بھی عبادت کرتا ہے ان میں تہجد کی نماز سے بہتر کوئی نہیں ہےاور زمین پر کوئی چیز اتنی مشکل نہیں ہے جتنی تہجد کی نماز، خود ان کا حال یہ تھا کہ کھڑے ہوکر تہجد پڑھتے، تھک جاتے تو بیٹھ کر پڑھتے ۔ مشہور بزرگ حضرت ثابت بن اسلم فرماتے ہیں میں نے اپنے قلب میں رات کی نماز سے بڑھ کر اور کوئی لذیذ چیز نہیں پائی، وہ پوری رات نماز پڑھتے تھے۔

ہمارے اسلاف و اکابرین نے ہمیشہ تہجد کا خاص اہتمام فرمایا ہے، مسلمانوں میں عمومی طور پر یہ رجحان رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں تہجد کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے، مرد و خواتین اور حتی کہ گھر کے بچے بھی رات کے آخری پہر میں بیدار ہوکر رب حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوا کرتے تھے اور رات کی تنہائی میں اپنے پالنہار سے راز و نیاز کی باتیں کیا کرتے تھے، لیکن افسوس کہ اب زمانے نےایسی کروٹ بدلی ہے کہ مسلمانوں کو فرائض کا بھی ہوش نہیں رہا ہے۔سنن و نوافل کا اہتمام عوام تو درکنار خواص میں بھی ناپید ہوتا جارہا ہے۔ اب ہماری مسجدیں اپنے مصلیوں کے لئے ترستی ہیں اور ہمارے منبر و محراب خطیب کی للکار سننے کو ترستے ہیں۔ موجودہ وقت کی تیز رفتار ترقی نے معاشرہ کو ایسے دلدل میں پھنسا دیا ہے جس کی گہرائی میں دن بدن ہم دھنستے جارہے ہیں۔ موبائل، انٹرنیٹ اور دیگر فضولیات ہماری زندگی کا ایسا لازمی جز بن گئے ہیں جو ہمارے ہر دن کا بیشتر حصہ لے لیتے ہیں۔  عبادت و ریاضت اور تعلق مع اللہ کی کیفیت جن سے ہمارے اسلاف و اکابرین کے قلوب سرشار تھے، ان لذتوں سے محرومی ہمارا مقدر بن گئی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں عبادت و ریاضت میں چاشنی پیدا فرمائے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے