تعلیم گاہ یا رقص گاہ
تعلیم کیا ہے اور تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے۔ تعلیم گاہیں کیوں قائم کی جاتی ہیں، اور کیوں تعلیم گاہوں کے قیام پر اتنا صرفہ برداشت کیا جاتا ہے؟ اگر تعلیم گاہوں کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ قوم و ملت کے نونہالوں کو اچھی تعلیم و تربیت سے مزین کیا جائے اور ان کے مستقبل کو سنوارنے اور سجانے کے لئے حتی الامکان سعی کی جائے تو یہ نیت سو فیصد درست ہے۔ کیونکہ تعلیم گاہوں کا مقصد اصلی یہی ہے۔ یہاں معصوم اور نادان بچوں کو پڑھایا لکھایا جاتا ہے اور انہیں زندگی گزارنے کے بہتر اور اچھے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے۔ بڑوں کا ادب اور دیگر لوگوں سے میل جول کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے۔ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور اساتذہ کی قدر دانی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اچھائی اور بُرائی میں فرق سمجھایا جاتا ہے۔ دوستوں کے ساتھ آپسی محبت اور اخوت و بھائی چارگی کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔ غرضیکہ تعلیم گاہوں میں ایک انسان کو انسان بنانے کے تمام نسخے آزمائے جاتے ہیں اور جن تعلیم گاہوں کا نظام تعلیم و تربیت جتنا عمدہ اور مضبوط ہے وہاں کے طلبہ اتنے ہی کامیاب و کامران تصور کئے جاتے ہیں اور معاشرہ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
لیکن اگر مذکورہ مقاصد کے علاوہ دیگر امور میں طلبہ کرام کو مشغول کیا جائے اور انہیں ایسے کاموں میں مصروف کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے جو ان کی تعلیم سمیت تربیت کے لئے بھی سُم قاتل ہو تو پھر معاملہ کافی تشویشناک ہوجاتا ہے۔ پہلے تعلیم گاہوں میں اچھی بُری باتوں کا فرق سمجھایا جاتا تھا اور اب ثقافتی پروگرام اور فنکاری کے نام پر بے حیائی و بے غیرتی کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پہلے تعلیم گاہوں میں تربیت کے لئے اساتذہ کرام کوشاں رہا کرتے تھے، انتظامیہ کی جانب سے مسلسل اس پہلو کو ترجیح دی جاتی تھی لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے، اب دکھاوے اور نمائش کو آگے کیا جاتا ہے اور دیگر امور کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ آج کل اسکول، کالج اور دیگر اداروں میں ایک عام وبا پیدا ہوگئی ہے۔ ہر موقع پر ثقافت کے نام پر رقص و سرود کی محفلیں جمائی جاتی ہیں اور علاقائی سطح پر ممتاز افراد کو مدعو کیا جاتا ہے اور دیگر تمام شائقین کے سامنے کبھی تو معصوم بچوں کا اور کبھی بچیوں کا رقص پیش کیا جاتا ہے۔ سماج کے مہذب اور باعزت افراد غیر تہذیبی روایات پر فرحاں و شاداں ہوکر داد تحسین سے نوازتے ہیں اور حوصلہ افزائی کے نام پر کبھی انتظامیہ اور کبھی رقاص و رقاصہ کو چند روپے عنایت کرجاتے ہیں جنہیں احترام اور ادب کے ساتھ اپنی بے غیرتی کی قیمت سمجھ کر قبول کرلیا جاتا ہے۔ صورتحال اس حد تک خراب اور پیچیدہ ہوگئی ہے کہ مسلم والدین اپنی بچیوں کو نیم برہنہ لباس میں غیروں کے سامنے رقص کرتے ہوئے دیکھنے کو عزت افزائی سمجھتے ہیں اور اس فعل قبیح کو فن کا نام دیتے ہوئے فخر و مباہات کرتے نظر آتے ہیں۔
نئی نسل کے اساتذہ نے تو تعلیم گاہوں اور درس گاہوں کو مکمل طور پر رقص گاہوں میں تبدیل کردیا ہے۔ اسکول، کالج اور دیگر عصری جامعات میں چونکہ خاتون اساتذہ کی تعداد بھی قابلِ ذکر ہوتی ہے، اور ان کے پاس زیر تعلیم طلبہ عموماً باشعور اور حد بلوغ کو پہنچے ہوتے ہیں۔ اب تو طلبہ کی تفریح طبع کی خاطر خاتون اساتذہ درس گاہوں میں رقصاں نظر آتی ہیں۔ کبھی بچے اور بچیوں کے درمیان ایسے مسابقہ منعقد کروائے جاتے ہیں اور انہیں ثقافت یا تفریح کا نام دیا جاتا ہے۔ جسمانی ورزش کے نام طلبہ کی ہر دو جنس کو بیک وقت میدان میں ایسے زاویے اختیار کرنے کے لیے زور دیا جاتا ہے جسے انسانی غیرت و حمیت کبھی برداشت نہیں کر سکتی ہے لیکن تعلیم کے نام پر سب کچھ ہو رہا ہے۔ بات اگر طلبہ تک محدود ہوتی تو بہتری اور سدھار کی گنجائش تھی لیکن اب تو یہ بیماری اساتذہ میں عود کر آئی ہے۔ آئے دن تربیتی نشست کے نام پر اساتذہ کو جمع کرایا جاتا ہے اور عجیب و غریب قسم کے بیہودہ کھیلوں کو تربیت کا حصہ بتا کر مردوں سمیت خاتون اساتذہ کو بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ غیرت و حمیت اور حیا و پاکدامنی ایمان کا اتنا اہم شعبہ ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس شعبہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے الگ سے بیان فرمایا ہے لیکن افسوس کہ آج تعلیم کے نام پر ہماری قوم بے حیائی کو اپنانے کے لیے تیار ہے۔
بحیثیت مسلمان، ہم نے کبھی سوچا کہ رقص و سرود کی ایسی مجالس و محافل میں شریک ہونا، یا ایسے کاموں کا حصہ بننا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک کتنا عبرتناک ہے۔ کیسی وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ اور ایسے افراد کو رسول ﷺ نے کن زمروں میں شامل فرمایا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مختصر طور پر ایسے کام کاج کا تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ شرعا یہ اعمال کیسے ہیں:
سورہ لقمٰن کی آیت نمبر 6 کی تفسیر میں مفتی شفیع صاحب معارف القرآن میں لکھتے ہیں: "جمہور صحابہ و تابعین اور عامہ مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے تمام ان چیزوں کے لئے جو انسان کو اللہ کی عبادت اور یاد سے غفلت میں ڈالے، اس میں غنا و مزامیر بھی داخل ہے اور بے ہودہ قصے کہانیاں بھی۔ امام بخاری نے اپنی کتاب الادب المفرد میں اور بیہقی نے اپنی سنن میں لہو الحدیث کی یہی تفسیر اختیار کی ہے۔ اس میں فرمایا ہے کہ لہو الحدیث سے مراد گانا اور اس کے مشابہ دوسری چیزیں ہیں (یعنی جو اللہ کی یاد سے غافل کردے)”۔
امام ابو داؤد اور امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حضرت ابو مالک اشعری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "میری امت میں کچھ لوگ شراب کو اس کا نام بدل کر پئیں گے ان کے سامنے معازف و مزامیر کے ساتھ عورتوں کا گانا ہوگا، اللہ تعالی ان کو زمین میں خسف کردے گا اور بعض کی صورتیں مسخ کرکے بندر اور سور بنادے گا”۔
حضرت ابوہریرہ کی طویل حدیث کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اور جب گانے والی عورتوں اور باجوں گانوں کا رواج عام ہو جائے، اور جب شرابیں پی جانے لگیں اور اس امت کے آخری لوگ پہلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں، تو اس وقت تم انتظار کرو ایک سرخ آندھی کا اور زلزلہ کا اور زمین میں خسف ہوجانے اور صورتیں مسخ ہوجانے کا اور قیامت کی ایسی نشانیوں کا جو یکے بعد دیگرے اس طرح آئیں گی جیسے کسی ہار کی لڑی ٹوٹ جائے اور اس کے دانے بیک وقت بکھر جاتے ہیں”۔
مذکورہ آیت و احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم اپنی اولاد کو کن مراحل سے گزار رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نام نہاد تعلیم اور ڈگری کے نام پر انہیں ایسے کاموں میں ملوث کر رہےہیں جنہیں ہمارے نبی ﷺ نے ملعون اور قابل گرفت بتایا ہے۔ اور جن کو بیان کرتے ہوئے سخت وعیدوں کا تذکرہ کیا ہے۔ زمانہ کی مناسبت اور دنیاوی اغراض و مقاصد کے لئے مروجہ نصاب تعلیم کو اپنائے بغیر چارہ کار نہیں ہے۔ ہر چہار جانب انہی ڈگریوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اچھی ملازمت کے حصول کے لئے اچھی اور بڑی ڈگری کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان تعلیم گاہوں سے قطع تعلق تو ممکن نہیں ہے البتہ ہم اپنے بچوں کی دینی تربیت کے ذمہ دار ہیں اور انہیں اسلامی عقائد و فوائد سے روشناس کرانا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ دینی غیرت و حمیت ان کے قلوب میں جاگزیں کرنا اور اسلامی ماحول میں ان کی پرورش کرنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ عصری جامعات کی تمام ڈگریوں کے حصول کی تگ و دو کرنے کے ساتھ یہ ملحوظ خاطر رہے کہ دین کی قدر و قیمت اور اہمیت ہمیشہ مقدم اور پیش نظر رہے۔ دین سے جس قدر قربت پیدا ہوگی اللہ تعالی راہیں آسان بنادے گا اور دنیا میں پیش آنے والے مسائل کا سامنا کرنا آسان ہوتا چلا جائے گا۔ اور حتی الامکان کوشش کریں کہ اپنے بچوں کے لئے ایسے اداروں کا انتخاب کریں جو تعلیم گاہ کے طور پر کام کرتے ہوں رقص گاہ کے طور پر نہیں۔ اگر ایسے اداروں کا انتخاب مشکل امر ہو تو اپنے بچوں کو دینی تعلیم کی روشنی میں ان بُرے اور افعال شنیعہ سے دور رکھنے اور دور رہنے کی مسلسل تنبیہات کریں اور دیگر ذمہ داریوں کی مانند ان کی اسلامی تربیت اور دینی تربیت کا خیال رکھیں۔
اردو سے انگریزی سیکھنے کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کریں، انگریزی زبان کے تمام اسباق بالترتیب دیئے گئے ہیں: