تعصب پسند اساتذہ کرام

کہا جاتا ہے کہ اساتذہ کرام ‘قوم کے معمار’ ہوتے ہیں۔ طلبہ کرام کی ذہنی تربیت میں سب سے اہم اور بنیادی کردار اساتذہ کرام کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنہیں ماہر، تجربہ کار، انصاف پسند، معیاری، محنتی، مخلص اور بامروت اساتذہ کرام نصیب ہوتے ہیں وہ ترقی کی کامنازل بہت جلد طے کرتے ہیں اور وہ نفسیاتی طور پر دیگر طلبہ سے ممتاز، سنجیدہ اور باوقار ہوتے ہیں۔ اسی لئے  پوری دنیا میں اساتذہ کرام کو ایک خاص اور اہم مقام حاصل ہے۔ بعض ممالک میں سب سے مقدس اور اہم پیشہ درس و تدریس کا تصور کیا جاتا ہے اور اس پیشہ سے منسلک افراد کو معاشرہ کا سب سے عزت دار اور قابل احترام انسان تصور کیا جاتا ہے۔ سماجی ادارے اور حکومتی شعبے بھی اساتذہ کرام کی تعظیم و توقیر میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں اور مختلف طرح سے ان کے اعزاز میں تقریبات منعقد کرکے ان کی خدمات کو سراہتے اور ان کی قربانیوں کو زندہ رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر 5 اکتوبر کو یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے اور ہمارے ملک میں پانچ ستمبر کو یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ علوم اور فنون کی منتقلی کا واحد ذریعہ اساتذہ کرام ہیں اگر انہیں درمیان سے ہٹا دیا جائے تو آنے والی نسلیں ناخواندہ اور جاہل رہ جائے گی۔ درس و تدریس کا شعبہ جتنا اہم اور باعزت ہے اتنا ہی یہ نازک اور ذمہ داری والا بھی ہے۔ اگر اساتذہ محنت اور جفا کشی سے طلبہ کی تعلیم و تربیت میں منہمک رہیں تو یقنا اس کے نتائج ثمر آور اور مفید ہوتے ہیں لیکن اگر اساتذہ کی جانب سے غفلت اور سستی کا مظاہرہ ہو تو پھر طلبہ کرام کا مستقبل تاریک اور پُرخطر ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر اساتذہ کا کردار تعصب پسندی پر مبنی ہوجائے تو پھر صرف طالب علم نہیں بلکہ پورا معاشرہ اس سے متاثر ہوتا ہے اور پورے معاشرہ میں جراثیم پھیل جاتے ہیں۔

ہمارے ملک ہندوستان میں بعض ایسے لوگ اساتذہ کے پیشے سے منسلک ہوگئے ہیں جو اس کے تقدس اور اس کا پاس و لحاظ تو درکنار بلکہ اس کی حقیقت سے بھی واقف نہیں ہیں۔ اساتذہ کرام جنہیں صالح معاشرہ کی تشکیل کا ضامن تصور کیا جاتا ہے اور جن کی راہنمائی و راہبری میں قوم کے بچے مستقبل کے سنہرے خواب دیکھتے ہیں اور ان کی تکمیل کے لئے ہمہ وقت تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن اب ایسے اساتذہ کرام پیدا ہوگئے ہیں جو طلبہ کی تعلیم و تربیت کے بجائے ان کے ذہنی دیوالیہ پن کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ طلبہ کو محبت کا سبق دینے کے بجائے نفرت کا پاٹ پڑھاتے ہیں۔ باہم مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کے معاون و مددگار بننے کی صلاح دینے کے بجائے ایک دوسرے سے دور رہنے کے طریقے اور دوسرے کو نقصان پہنچانے کے اسباب پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔ جو اساتذہ کرام کبھی فرشتہ صفت انسان بنانے کے لئے مشہور تھے اب وہ جانور نما بھیڑ تیار کررہے ہیں۔ تعلیم جس کا بنیادی مقصد نفع، بھلائی، خیر اور اخوت و بھائی چارگی ہے اب اسے بُرائی، نقصان، نفرت و عداوت کا ذریعہ بنایا جارہا ہے۔ کبھی کسی کے نام کے ساتھ ایسی صفات جوڑ دیتے ہیں جن کی وجہ سے وہ طالب علم ہمیشہ کے لئے دوسروں کی نظر میں معتوب ہوجاتا ہے اور کبھی مخصوص کمیونٹی کے افراد پر ایسے تبصرے کرتے ہیں جس سے اس کمیونٹی کے طلبہ کے احساس و جذبات زخمی ہوتے ہیں بلکہ دوسرے انہیں قابل نفرت تصور کرنے لگتے ہیں۔ دوران درس مثال دینے اور بات کو سمجھانے کے لیے ایسے حربے آزمائے جاتے ہیں جن سے دوسروں کی دل آزاری ہوتی ہے۔حقیقت بیانی کے بجائے تاریخ کو مسخ کرکے طلبہ کرام کے اذہان کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔

جب ایسے لوگ اساتذہ کرام کا مقدس پیشہ اختیار کریں گے اور طلبہ کرام کو نفرت و عداوت اور دشمنی کرنا سکھائیں گے، نیز ان  کی غلطیوں پر تنبیہ کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آئیں گے اور انہیں دوسروں کو ذلیل و خوار کرنے کا موقع فراہم کریں گے تو پھر ہمارے معاشرہ میں طلبہ کی شکل میں ایک ایسی بھیڑ ہوگی جن کے بدن اور ذہن پر کتابوں کا بوجھ ہوگا، ڈگریوں کا پلندہ ہوگا لیکن انسانیت اور محبت نہیں ہوگی۔ نفرت اور عداوت کا دور دورہ ہوگا اور ایک دوسرے کے معاون بننے کے بجائے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے در پر رہنے والے سازشی افراد ہوں گے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارے معاشرہ میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے۔ بے شمار ایسے شعبے جات قائم ہیں جہاں ایسے افراد بکثرت پائے جاتے ہیں جن میں انسانیت نہیں بلکہ حیوانیت بستی ہے اور جو انسانوں کے ساتھ انسان نما برتاؤ نہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو اپنی خوشی کے لئے دوسروں کو تکلیف پہنچانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انسان کو انسان ہونے کے نظریے سے نہیں بلکہ ذات پات، دھرم اور مذہب کے نام سے جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ ان کے فیصلے مبنی بر انصاف نہیں بلکہ مبنی بر عداوت ہوتے ہیں۔ اور ایسے تمام افراد کی نشو و نما اور ذہنی کیفیت کو اس حد تک پراگندہ کرنے اور انہیں ملیا میٹ کرنے میں ان اساتذہ کرام کا بڑا دخل ہوتا ہے جن سے یہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جب اساتذہ کرام کتاب پڑھانے کے بجائے ذات پات، دھرم اور مذہب پڑھائیں گے تو پھر طلبہ مستقبل میں ایسے ہی کام کرنے والے بنیں گے۔

ہمارے سماج اور معاشرہ کو ایسے افراد سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ اساتذہ نہیں بلکہ ملک اور معاشرہ کے لئے ناسور اور جراثیم ہیں جن کی ذات سے صرف نقصان ہوسکتا ہے یا پھر یہ صرف نقصان دہ مادہ تیار کرکے ملک و معاشرہ میں پھیلا سکتے ہیں، ان کی ذات سے نفع نہیں ہوسکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ایسی خراب ذہنیت کے افراد جو درس و تدریس کے مقدس پیشہ کو بدنام کر رہے ہیں اور دیگر اساتذہ کی بدنامی کا باعث بننے رہے ہیں ان کے خلاف حکومتی سطح پر کاروائی ہو تاکہ ملک اور سماج کو ان کی گندگی اور گندی ذہنیت سے دور رکھا جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب ایسے لوگ شتر بے مہار کی مانند ہر جگہ دندناتے پھریں گے اور اپنی گھٹیا سوچ اور ذہنیت سے ماحول کو خراب کرتے پھریں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دیگر شعبوں کی مانند درس و تدریس کا مقدس پیشہ بھی ہمیشہ کے لئے بدنام ہوجائے گا اور سماج میں اس کی حیثیت ختم ہوجائے گی۔  

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے