بہار الیکشن میں نیا سیاسی محاذ

بہار الیکشن میں نیا سیاسی محاذ
بہار الیکشن میں اچانک مجلس اتحاد المسلمین کا دیویندر پرساد یادو کی پارٹی سے اتحاد نے بہار کی سیاست میں کھلبلی مچادی ہے۔ بہار کی دو مضبوط علاقائی سیاسی پارٹیوں کے ہوش اڑتے نظر آرہے ہیں۔ طویل زمانہ سے ان دونوں پارٹیوں نے بہار میں سیکولر ہونے کی شبیہ دکھا کر مسلم اور سیکولر غیر مسلموں کے ووٹ کے بل بوتے راج کیا ہے۔ 
آر جے ڈی کی موجودہ قیادت لالو پرساد یادو کے بیٹے تیجسوی یادو کے ہاتھوں میں ہیں، لیکن تیجسوی یادو میں باپ جیسی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے جس کا اندازہ گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں ہوچکا ہے۔ ابھی ابھی حالات ایسے نہیں ہیں کہ یقین کے ساتھ کہا جاسکے کہ تیجسوی کی قیادت میں عظیم اتحاد کامیابی حاصل کرسکے گی۔ اس لیے کہ نہ تو وہ اپنی پارٹی کے بڑے لیڈروں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کررہے ہیں اور نہ ہی اتحادی جماعتوں کو مطمئن کرپارہے ہیں۔ انہوں نے اپنے پارٹی کے قد آور لیڈران کو نظر انداز کرکے اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشرف علی فاطمی جیسے لیڈر نے اپنا پالا بدل لیا ہے۔ ان کے علاوہ کئی ایک ایسے نمائندے ہیں جو سیاسی ہیر پھیر کے چکر میں اب تک لگے ہوئے ہیں۔ اور ان سب کا نتیجہ ہے کہ اب تک حالات نتیش کمار کے حق میں نظر آرہے ہیں۔ 
اگر بہار کی سیاست میں پارٹیوں کی بات کی جائے تو ایک بات سمجھ سے پرے ہے کہ آخر آر جے ڈی خیمہ اویسی کو ساتھ لینے کو تیار کیوں نہیں ہے، وہ بھی ایک سیکولر پارٹی ہے، الیکشن کمیشن سے منظور شدہ ہے، کئی ریاستوں میں اس کے نمائندے ہیں خود بہار اسمبلی میں اس کا نمائندہ ہے۔ خیر کچھ بھی ہو البتہ اویسی کی روز افزوں بڑھتی مقبولیت سے پریشان وہ بھی نظر آرہے ہیں۔ مکیش سہنی کو نمائندگی مل جاتی ہے، پاسوان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے، مانجھی کو منانے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق یہ کہنا کہ یہ سیکولر ہیں یہ خلاف قیاس ہے البتہ یہ حضرات مفاد پرست اور موقع پرست ضرور ہیں۔ یہ کب کہاں ہاتھ ملانے کیلئے پہنچ جائیں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ان کی در بدلی کے باوجود ان کیلئے راستے ہموار کئے جاتے ہیں، انہیں لبھایا جاتا ہے اور ان کی شرائط کے مطابق انہیں حصہ داری دی جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ انہیں:
خود اپنی ذات سے اب تک مصالحت نہ ہوئی
آر جے ڈی، جے ڈی یو یا دیگر سیکولر پارٹیوں کی بات کی جائے تو ان تمام میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔ سب سے پہلی اور قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ ان پارٹیوں کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ ان کا اپنا، حتی کہ اپنی برادری کا ووٹ بینک بھی ان کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آسام میں کانگریس نے مجبوراً اے آئی یو ڈی ایف سے ہاتھ ملایا ہے۔ یہی خدشہ اب بہار کی نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو لاحق ہے کہ ان کا بچا کھچا ووٹ بھی ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے جے ڈی یو نے اپنے مسلم لیڈر خالد انور کو سر گرم کردیا ہے، جو ہر ممکنہ طور پر حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر کئے گئے سرکاری کام کاج کو بطور احسان شمار کرانے اور عوام کو اپنی حکومت کی جانب راغب کرنے میں مصروف ہیں، اور خود کو اور اپنی پارٹی کو عوام کا تابع، خادم اور ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ موصوف اپنے عمل میں کس حد تک کامیاب ہوں گے یہ تو الیکشن کے نتائج سے ہی معلوم ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب آر جے ڈی نے بھی اپنے لیڈران کو مسلمانوں کو رجھانے کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ استعمال صرف مسلمانوں کو کیا جاتا ہے۔ سیاست میں کب کون پارٹی بدل کر چلا جائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے
ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے 
یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے
 لیکن جس طرح کی زبان مجلس اور اویسی کے خلاف استعمال کی گئی ہے اور امید ہے کہ آئندہ بھی کی جائے وہ کسی بھی مہذب، شائستہ اور تعلیم یافتہ حضرات کیلئے مناسب نہیں ہے۔ 
اویسی نے جن سے اتحاد کیا ہے، وہ بہار کی ایک غیر معروف سیاسی پارٹی ہے حتیٰ کہ خود دیویندر پرساد یادو کی شخصیت بہار کے عوام کیلئے محتاج تعارف ہے۔ ایسی صورتحال میں مجلس کو کیا فوائد حاصل ہوں گے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن مجلس کی مقبولیت سے دیویندر پرساد یادو کا فائدہ ضرور ہوگیا ہے۔ البتہ مجلس کو بہار کی سیاست میں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بہار کی خمیر میں سیاست رچی بسی ہوئی ہے۔ سیاست میں حصہ داری بہت ضروری ہے لیکن اس کے طریق کار کو سوچ سمجھ کر اپنانا ہوگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ مجلس کے جذباتی فیصلوں سے نفع کے بجائے نقصان ہو جائے۔
ہمارے دیگر مضامین سے استفادہ کیلئے کلک کریں

Related Posts

0 thoughts on “بہار الیکشن میں نیا سیاسی محاذ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے