بہار الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کا امڈتا سیلاب

بہار الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کا امڈتا سیلاب
بہار الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے۔ الیکشن تین مراحل میں مکمل کئے جائیں گے، جبکہ گنتی 10 نومبر کو ہوگی۔ گنتی کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا کہ بہار کی گدی کس کے حصہ میں آتی ہے۔ ایک طرف این ڈی اے نتیش کمار کی قیادت میں مکمل تیار ہے جبکہ دوسری جانب مہا گٹھبندھن ابھی تک پس و پیش میں ہیں۔ ان دو الائنس کے علاوہ اور بھی الائنس وجود میں آگئے ہیں۔ 
2015 کے اسمبلی الیکشن میں جب آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس نے ایک ساتھ الیکشن میں حصہ لیا تھا، اس وقت اچانک سماجوادی پارٹی اکھلیش یادو کی قیادت میں نمودار ہوئی تھی اور کئی جگہ اس پارٹی نے عظیم اتحاد کا کھیل بگاڑ دیا تھا۔ ایسا ہی بہت کچھ اس مرتبہ بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ 
ایس ڈی پی آئی، جن ادھیکار پارٹی، آزاد سماج پارٹی اور بہوجن مکتی پارٹی، ان تمام سیاسی جماعتوں نے ایک نیا اتحاد پروگریسیو ڈیموکریٹک الائنس بنایا ہے۔ ان میں قابل ذکر پپو یادو کی پارٹی جن ادھیکار پارٹی ہے۔ پپو یادو بہار کے مشہور اور زمینی لیڈر تصور کئے جاتے ہیں۔ غریبوں اور کمزوروں کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے ابتدائی ایام میں جب پورے ملک سے مہاجر مزدور بے یار و مددگار پیادہ پا اپنی منزلوں کو روانہ ہوئے تھے، اس موقع پر بھی انہوں نے زندہ دلی کا ثبوت دیا تھا اور ہر ممکن طریقے سے مزدوروں کے اعانت کی کوشش کی تھی۔ پپو یادو، فی نفسہ مقبول ہیں، لیکن ان کی سیاسی پارٹی کی مقبولیت ابھی تک قابل ذکر نہیں ہے۔ رہی بات چندرشیکھر راون اور دیگر لیڈران کی، تو ان کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ موقع پرست لیڈر ہیں، جب عوام مصائب و مشکلات کے دلدل میں پھنسی ہوتی ہے تو یہ چادر تان کر سو جاتے ہیں اور موقع ملتے ہی اپنے آپ کو سب سے بڑا ہمدرد قوم کا مسیحا بناکر پیش کرتے ہیں۔
 اس وقت بہار میں چار الائنس ہیں:  این ڈی اے، جس کا اپنا ووٹ بینک ہے، اس میں کچھ کمی ہوجائے یا ان کے ووٹر منتشر ہوں، اس کی توقع فضول ہے۔ آر جے ڈی اینڈ کانگریس، ان کا اپنا ووٹ بینک تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اگر کچھ فیصد باقی بھی ہیں تو ان کے سہارے یہ الائنس حکومت بنالے، اس کے آثار بہت کم ہیں۔ دیگر دو الائنس جو حال فی الحال میں وجود پذیر ہوئے ہیں ان کی اپنی کوئی خاص زمین نہیں ہے۔ 
ان تمام باتوں کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ، دیگر تین الائنس کا ممکنہ حد تک دار و مدار مسلم ووٹرز پر ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ جب ووٹ کی تقسیم تین خیموں میں ہوگی تو کامیابی چوتھے کی یقینی ہے۔ بہار کی کئی سیٹوں پر مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں، ایسے میں مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ سوجھ بوجھ کر اپنے حق کا استعمال کریں۔ اس کے لیے زمینی سطح پر مسلم کمیونٹی میں کام کرنے کی ضرورت ہے، مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے مستقل ایک ٹیم ہونی چاہیے، تحریر و تقریر سے خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آرہا ہے۔ آج جس پارٹی کی حکومت ہے اور ملک کے تمام شعبوں پر جس کا قبضہ ہے اس نے سو سال تک پہلے محنت کی، گھر گھر جا کر اپنے اغراض و مقاصد بیان کیے تب جاکر یہ کامیابی ملی ہے۔
آج پورے ملک کے مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ، نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے اب تک ہمارا استعمال کیا ہے۔ لیکن جب ضرورت پڑی ہے، یا مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئی ہے تو ان سیکولر شبیہ والوں نے ہمیشہ مایوس کیا ہے۔ یہ گلہ اور شکوہ بجا ہے، کیونکہ حقیقت یہی ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک بہار کی سیاست میں مسلمانوں کی شراکت داری پر نگاہ ڈالی جائے تو ان کی حصہ داری نا کے برابر ہے۔ بہار میں آزادی کے بعد سے پندرہ اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں جن میں مسلم نمائندگی صرف 7.27 فیصد رہی ہے۔ جب ہمیں یہ یقین ہے کہ، اب تک ہمیں حصہ داری نہیں ملی ہے۔ جس کے ہم حقدار ہیں وہ حقوق بھی نہیں ملے ہیں، تو پھر کیوں نہ اس بار اپنے بل بوتے اپنی حصہ داری ثابت کریں۔ ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے،   کیونکہ آزادی کے بعد سے ہمیں کچھ ملا نہیں ہے؛لیکن اگر ہم نے اپنی حصہ داری ثابت کردی تو مستقبل میں پانے کے مواقع پیدا ہو جائیں گے۔ 
بہار کے اس الیکشن میں، مجلس دوبارہ پنجہ آزمائی کیلئے تیار ہے۔ اس وقت کشن گنج سے مجلس کی ایک اسمبلی سیٹ ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں مجلس نے ہر ممکنہ طور پر اپنی زمین بنانے کی کوشش کی ہے۔ مجلس اس مرتبہ کیا گل کھلائے گی، یہ تو وقت بتائے گا لیکن یہ طے ہے کہ مجلس کو ووٹ دینے میں مسلمانوں کا کوئی نقصان نظر نہیں آرہا ہے۔ بلکہ اس کے ذریعہ بہار میں اپنی حصہ داری والی سیاست کی شروعات ہوگی، جس میں نام نہاد لیڈروں کی بیساکھی کے سہارے جینے کے بجائے اپنے پروں سے پرواز کا حوصلہ ملے گا۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ مجلس سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے، ایسے امیدوار کا انتخاب کیا جائے جن میں خدمت کرنے کا جذبہ ہو، ورنہ تو پانچ سال بعد دیدار، دیگر لیڈران کا بھی ہو جاتا ہے۔ مجلس کو یہ بات ماننا چاہئے کہ ان کے پاس صرف اور صرف اپنے ووٹرز ہیں کسی اور طبقہ کا ووٹ مجلس کو مل جائے یہ خلاف قیاس ہے۔
ہمارے دیگر مضامین سے استفادہ کیلئے کلک کریں

Related Posts

5 thoughts on “بہار الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کا امڈتا سیلاب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے