بہار الیکشن میں”جملوں” کی برسات

 

سیاسی وعدے اور سیاسی جملے وہ پوشیدہ خزانے یا ہتھیار ہیں جنہیں الیکشن کے وقت ملمع سازی کرکے نکالا جاتا ہے اور حالات کے اعتبار سے مزید چند خوبصورت وعدوں اور جملوں کا اضافہ کرکے الیکشن کے معا بعد آئندہ کے لیے محفوظ کردیا جاتاہے۔ اور ہر الیکشن میں نئے  مینو فیسٹیو کے طور پر جاری کیا جاتاہے۔ چنانچہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی نے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے ایک صوبائی الیکشن میں ڈرامائی طور پر اپنا مینو فیسٹیو جاری کیا ہے۔ اس مینو فیسٹیو کو جاری کرتے ہوئے ملک کی وزیر خزانہ (جن کی وزارت میں ملک کی معیشت بنگلہ دیش سے بھی بدتر ہوگئی ہے) محترمہ نرملا سیتا رمن نے بہار والوں سے وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم حکومت میں آئیں گے اور بہار میں این ڈی اے کی سرکار بنے گی، تو بہار والوں کو کورونا ویکسین مفت میں دی جائے گی۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا اگر این ڈی اے کی حکومت نہیں بنتی ہے، تب بہار والوں کو کورونا ویکسین نہیں ملے گی؟ یا دیگر صوبوں کا کیا ہوگا، کیا انہیں بھی ویکسین کیلئے الیکشن کا انتظار کرنا پڑے گا؟ 

بات 2015 کی ہے، جب بہار کے (آرہ) میں ملک کے وزیراعظم نے نیلامی والے انداز میں  بولی لگاتے ہوئے ایک لاکھ پچیس ہزار کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بہار کے مختلف شعبوں میں بہتری پیدا کرنے کیلئے اس خطیر رقم کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ابتدا کے اٹھارہ مہینوں کو چھوڑ کر باقی کے ایام میں بی جے پی نے ہی نتیش کمار کے ساتھ حکومت کی ہے۔ سوال تو بنتا ہے کہ، حکومت میں رہنے کے باوجود وزیراعظم صاحب نے بہار والوں کو اس اعلان سے کیا کچھ دیا ہے۔ یہ سوال تو نتیش سرکار سے ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ آپ نے اس رقم کی حصول یابی کیلئے کتنی تحریکیں چلائی ہیں اور کتنی بار مطالبہ کیا ہے۔ بھاگلپور میں یونیورسٹی کا وعدہ کیا گیا تھا، کیا ہوا اس یونیورسٹی کا۔ نیپال سرحدی علاقوں میں ہائی وے کا وعدہ اور اس قسم کے  بے شمار وعدے ہیں جن کو یہاں شمار کرنا مشکل ہے۔ 

ایک مرتبہ پھر دربھنگہ میں ایمس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اب تو دربھنگہ شہر بھی اس وعدہ سے اوب گیا ہوگا۔ ہر بار الیکشن سے قبل وعدہ کیا جاتا ہے۔  اور الیکشن کے بعد اسے طاق نسیان میں آئندہ کے لئے رکھ دیا جاتا ہے ۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ دس نومبر کو دربھنگہ سے جہاز اڑے گی یا نہیں۔ معلوم نہیں کب کون سا فیصلہ بدل جائے اور کن وجوہات کی بنا پر پروگرام کو تبدیل کردیا جائے۔بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ اب تک نہیں ملا ہے ، حالانکہ دونوں جانب تو حکومت این ڈی اے کی ہی ہے ۔ بہار کی ترقی کا وعدہ کرنے والے،  اختیارات کے باوجود اب تک بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ نہیں دے سکے ہیں ۔ سوسالہ قدیم پٹنہ یونیورسٹی کو اب تک سینٹرل یونیورسٹی کی حیثیت نہیں دی گئی ہے ، حالانکہ اس یونیورسٹی نے ہندوستان کو بے شمار لائق و فائق افراد دیئے ہیں، بی جے پی کے موجودہ قومی صدر جے پی نڈا، مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی اسی یونیورسٹی کے فیض یافتہ ہیں۔ ان کے علاوہ ملک کے کئی اہم عہدوں پر یہاں کے تعلیم یافتہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔  

عجیب بات ہے کہ ہمارے لیڈران عوام کو کتنا بیوقوف سمجھتے ہیں کہ بہار الیکشن میں کشمیر پر بحث کی جاتی ہے اور بہار کے ان مزدوں کو بھلا دیا جاتا ہے جنہوں نے ہزار دو ہزار کلو میٹر پیدل طے کیا تھا۔ جنہیں ملک کی مختلف ریاستوں میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا تھا ۔وہ  دھوپ کی تپش، بھوک کی شدت اور پیروں میں پھٹن کے باوجود پیدل سفر کرنے پر مجبور تھے ۔ ان کے درد کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ بہار کی اس بیٹی کی بات کیوں نہیں کی جاتی ہے جس نے اپنے بیمار باپ کو سائیکل پر بٹھا کر ہریانہ سے بہار کا سفر کیا تھا۔ اس گیارہ سالہ بچہ کو کیوں یاد نہیں کیا جاتا ہے جس نے ٹھیلے پر اپنے ماں باپ کو بنارس سے ارریہ کا سفر طے کرایا تھا۔ بہار الیکشن کا ملک کی مشہور و معروف یونیورسٹی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) سے کیا لینا دینا ہے کہ اس پر بحث کی جاتی ہے۔ بہار میں سیاست کی جاتی ہے، سیاست پر بات ہوتی ہے، سیاسی کھیل ہوتا ہے، سیاسی باتیں ہوتی ہیں، سیاست کی باتیں ہوتی ہیں لیکن بہار کی ترقی نہیں ہوتی ہے ۔ بہار کل بھی پسماندہ تھا، آج بھی پسماندہ ہے۔ بہار میں پہلے بھی روزگار کے مواقع کم تھے اور آج بھی بہار میں روزگار کے مواقع کم ہیں۔

اب بہار میں 19 لاکھ نوکریاں دی جائیں گی، ابھی تک تو حکومت میں آپ ہی تھے تو نوکری دیا کیوں نہیں؟ اگر ویکینسی نہیں ہے تو کہاں سے لائیں گے اور اگر ہے تو اب تک حقدار کو اس کا حق کیوں نہیں دیا گیا؟ تعلیم میں بہتری پیدا کرنے اور سہولت فراہم کرنے کی بات وہ لوگ کررہے ہیں جو گزشتہ پندرہ سالوں سے بہار کا تخت اپنے سروں پر سجائے بیٹھے ہیں۔  کیا پندرہ سال کا عرصہ بہتری پیدا کرنے کیلئے کافی نہیں تھا۔

بات دراصل یہ ہے کہ جب نیت میں کھوٹ ہو، عوامی ہمدردی نہیں بلکہ صرف عوام کے ووٹوں کی ضرورت ہو، عوام کی کامیابی نہیں بلکہ انہیں حقیقی مسائل سے دور رکھنا ہو تو اسی طرح جذباتی کارڈ کھیلا جاتا ہے۔ emotional blackmail کیا جاتا ہے اور ترقی، بنیادی مسائل، تعلیم اور روزگار سے توجہ ہٹاکر غیر ضروری موضوعات کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ اور عوام کا بھولا پن کہ ہر بار اچھے کی امید میں ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں اور پھر پانچ سال تک اپنی قسمت کا رونا روتے ہیں۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے