بکاؤ مال ہے، کوئی خریدار تو ملے

بکاؤ مال ہے کوئی خریدار تو ملے

کچھ عرصہ قبل تک جب راجیہ سبھا کا چناؤ ہوا کرتا تھا تو چند سیاسی مبصرین اور ماہرین کے تقریباً تمام افراد ان خبروں سے بے خبر رہا کرتے تھے۔ عوام الناس کو ان انتخابات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوا کرتی تھی، لیکن اب راجیہ سبھا سے قبل پیش آنے والے واقعات نے عوامی توجہ کو مکمل طور پر اپنی جانب مبذول کرا لیا ہے۔ گزشتہ دنوں جب احمد پٹیل کو گجرات سے راجیہ سبھا سیٹ سے منتخب کیا گیا تھا تو اس وقت جو ڈراما ہؤا وہ ہندوستانی جمہوریت کو شرمندہ کرنے کیلئے کافی تھا۔ ایم ایل اے کی خریدوفروخت کا عمل شروع ہوا، بولیاں لگائی گئی، قیمتیں متعین کی گئی، ایمانداری کا سودا کیا گیا، ضمیر فروشی کا بازار گرم ہوا، وفاداری سر عام نیلام کی گئی اور خود کو ملک کے قائدین کہنے والوں نے اخلاق سوزی کا ایسا کارنامہ انجام دیا جسے اخلاق کے باب کا تاریک ترین باب قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوا تو ابھی تک تھما نہیں ہے۔ اب باضابطہ خریدوفروخت کا بازار گرم ہوچکا ہے۔ اگر الیکشن میں ناکامی ہاتھ لگ جائے۔ عوام الناس کالے کرتوتوں سے نالاں ہوکر کرسی سے نیچے اتار دے۔ اشتہارات کے سہارے جیت درج کرنے کا خواب چکناچور ہو جائے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، کیونکہ اب تو قابل فروخت اشیاء کی مانند، منتخب شدہ نمائندے بھی بکتے ہیں۔ عوام جنہیں اعتماد کی بنیاد پر منتخب کرتے ہیں وہی افراد وقت آنے پر چند روپیوں اور عہدوں کی خاطر عوام کے اعتماد کو چکنا چور کرکے ضمیر فروشی پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ 

کرناٹک کی عوامی حکومت کو نمائندگان کے ہیر پھیر کے بعد بالآخر دوسری جماعت کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ عوام نے جنہیں چنا تھا وہ کسی اور کے ہوگئے اور عوام کو ہمیشہ کی طرح مایوسی ہاتھ لگی تھی۔ بعد ازاں مہاراشٹر میں جو سیاسی ڈراما رچایا گیا، جس طرح صبح سویرے اچانک، امید کے برخلاف حکومت بنائی گئی وہ بھی کسی سرکس کے ڈرامے سے کچھ کم نہیں تھا۔ پھر شام ہوتے ہی معلوم ہوا کہ صبح کی حکومت چل بسی ہے۔ یہ سب کچھ کیوں کیا جاتا ہے اور کیوں جمہوریت کے اس دیش میں عوام کے منتخب نمائندے دغا دے جاتے ہیں۔ ان سب امور کی انجام دہی کیلئے وقت اور حالات کا جائزہ نہیں لیا جاتاہے بلکہ شطرنجی چال چلی جاتی ہے۔ جب چال کامیاب ہوجائے فوراً قبضہ کرلیا جاتاہے۔ جس وقت ملک میں کرونا وائرس اپنے پاؤں پسار چکا تھا۔ تالہ بندی کا فرمان نافذ کیا جاچکا تھا۔ لوگ اپنے عزیزوں سے ملاقات کو ترس رہے تھے۔ عوام میں خوف و ہراس کی لہر اپنا پنجہ گاڑ چکی تھی، ایسے نازک وقت میں مدھیہ پردیش میں حکومت کے افراد ریاستی حکومت گرانے میں مگن تھے۔ حکومت گرائی بھی گئی۔ جشن بھی منایا گیا۔ دوبارہ حکومت بنائی بھی گئی اور عوام نے ایک بار پھر کھلی آنکھوں سے یہ مشاہدہ کرلیا کہ کس طرح ہماری منتخب حکومتوں کو گرا کر کچھ لوگ جمہوریت کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ 

ابھی کچھ دنوں قبل گجرات سے ایسی خبریں موصول ہوئی جہاں راجیہ سبھا کے الیکشن سے عین قبل ایم ایل ایز کی خریدوفروخت کا کاروبار شروع ہوا۔ اپنے ایم ایل ایز کو بچانے کیلئے گجرات کانگریس نے انہیں ریاست سے باہر محفوظ مقام پر پہنچایا تاکہ ان کو بازار میں بکنے سے روکا جاسکے۔ راجستھان سے بعض نمائندگان کے حوالہ سے کہا گیا کہ، انہیں باضابطہ فون کرکے بکنے کیلئے کہا جارہا ہے۔ جس کے عوض انہیں خطیر رقم کی پیشکش کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اب راجیہ سبھا، ایم ایل سی اور دیگر الیکشن میں جہاں منتخب نمائندوں کے ذریعہ ووٹ کیا جاتا ہے کراس ووٹنگ کے معاملات بہت زیادہ آرہے ہیں۔ 

ایسی ہی ایک خبر منی پور سے موصول ہوئی ہے۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ پلٹ گیا ہے۔ یہاں حکومت کے بعض نمائندگان نے اپنی پارٹی کو خیر باد کہہ کر کانگریس کے ہاتھ کو تھاما ہے۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس کھیل میں وزیر اپنی کرسی بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر شہ مات کے اس کھیل میں اس بار انہیں ہار نصیب ہوجائے گی۔ کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔اب مہاراشڑ کی حکومت شش وپنج کی شکار ہے، ادھو ٹھاکرے جس نے کرونا وائرس کے ایام میں بہترین سیاسی راہنما ہونے کا ثبوت دیا اور عوام میں اپنی صاف ستھری شبیہ کو بنانے میں کامیاب رہے ہیں ان کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اور خطرہ ایسے لوگوں سے ہے جن کو سیاسی میدان میں چالبازی ادھو ٹھاکرے کے گھرانے سے ملی ہے جن کی شناخت اور حیثیت ادھوٹھاکرے سے ہے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ ادھو ٹھاکرے اپنی کرسی بچا پاتے ہیں یا نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ عوام کے ووٹ کی حیثیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ عوام اپنی پسند سے کسی کو منتخب کرتے ہیں لیکن ان پر حکومت کوئی اور کرتا ہے۔ 

لیکن ایک بات تو اظہر من الشمس ہے کہ ہندوستانی سیاست میں اخلاقی اقدار کا فقدان ہے۔ یہاں سیاست اور سیاسی چالیں مفاد کی خاطر بدل جاتے ہیں۔ ایمانداری اور وفاداری بھولی بسری داستان پارینہ ہے جس کی آج کے سیاست دانوں کو ضرورت نہیں ہے۔ ہندوستانی سیاست کے اس گھناؤنے کھیل میں ہمیشہ ہار عام جنتا کی ہوتی ہے، جو ایک نمائندہ کو اعتماد کی بنا پر منتخب کرتی ہے لیکن وہ سیاسی نمائندہ منتخب ہونے کے بعد مارکیٹ میں اپنی قیمت دیکھ کر، طے کرکے اپنی وفاداری بدل لیتا ہے۔سیاست میں بھی ایسے اصول و ضوابط کی ضرورت ہے جس سے عوام کے اعتماد کو چکنا چور ہونے سے بچایا جائے، جب عوام اپنی پسند سے کسی کو منتخب کرتی ہے پھر وہ شخص عوام کو دھوکہ دے کر کسی اور پارٹی کا دامن تھام لے یا کسی اور سمت چلا جائے تو اس کے خلاف اتنی کاروائی ضرور ہو کہ کوئی دوسرا ایسا کرنے کی جسارت نہ کرسکے۔ 

Related Posts

25 thoughts on “بکاؤ مال ہے، کوئی خریدار تو ملے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے