علامہ انور شاہ کشمیری: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

 

 علامہ انور شاہ کشمیری: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں: "گزشتہ پانچ سو سالوں میں ان سے زیادہ علم حدیث پر دسترس رکھنے والا کوئی روئے زمین پر نہیں آیا ہے”۔  حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی (مہتمم دارالعلوم دیوبند) فرماتے ہیں: "ہم لوگ آپ کے عادات و اطوار سے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیکھا کرتے تھے، کیونکہ آپ کا ہر فعل اور ہر عمل سنت نبی کا آئینہ ہوا کرتا تھا”۔ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی فرماتے ہیں "بلا شبہ شاہ صاحب(علامہ انور شاہ کشمیری) کی وفات سے علماء و طلبہ یتیم ہوگئے ہیں،فضل و کمال، تبحر علمی، وسعت معلومات اور قوت حافظہ میں آپ کی نظیر نہیں تھی، میں نے ہندوستان اور عالم عربی کے نامور علماء کو دیکھا اور ان سے ملاقات کی ہےلیکن علامہ کشمیری کی نظیر کہیں نہیں پائی”۔ علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں  "میرے نزدیک ان  (شاہ صاحب ) کی وفات ابن حجر کا سانحہ ابن دقیق العید کی رحلت اور سلطان العلماء کا دنیا سے اٹھ جانا ہے”۔علامہ زاہد کوثری فرماتے ہیں: "حافظ ابن ہمام کے بعد استخراج مسائل میں مولانا انور شاہ کشمیری مرحوم کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے”۔

allama-anwar-shah-kashmiri-aur-unki-hayat-allama-anwar-shah-kashmiri-aur-unki-tasaneef
علامہ انور شاہ کشمیری

 

علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم کلام، عقائد، علم طب، علم اسماء الرجال، علم ریاضی، علم فلکیات، علم تاریخ، فصاحت و بلاغت، فلسفہ اور جدید علم کلام ان تمام علوم کو ایک جگہ جمع کرکے اسے ایک حسین اور خوبصورت گلدستہ کی شکل دی جائے اور اس گلدستہ کو نام دیا جائے تو اس کا نام انور شاہ کشمیری ہوگا۔ مشائخ عرب و عجم میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ آپ کی ذہانت و فطانت اور قوت حافظہ کا کوئی جواب نہیں تھا۔

تاریخ ولادت

علم و عمل کا یہ آفتاب و ماہتاب  16 اکتوبر 1875 بمطابق 27 شوال 1292 بوقت صبح اپنے نانیہال میں "دودوان” نامی بستی میں بروز سنیچر روئے زمین پر بفضل خداوندی وارد ہوا۔ آپ کی والدہ نہایت پاک طینت اور صوم و صلوۃ کی پابند تھیں۔  اور آپ کے والد محترم علاقہ کے علمی و روحانی راہنما تھے۔ اس اعتبار سے آپ کی تربیت ایسے ماں باپ کے آغوش شفقت میں ہوئی جن سے علم و عمل کے سوتے پھوٹتے تھے۔ والدین کی نیک طبیعت اور پارسائی سے وافر حصہ علامہ انور شاہ کشمیری کو ملا تھا۔ محض پانچ سال کی عمر میں آپ نے والد ماجد سے قرآن مجید پڑھنا شروع کردیا تھا۔ آپ کی ذہانت و فطانت کے تانے بانے اسی وقت سے نظر آنے لگے تھے۔ آپ اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں زیادہ تیز فہم، قوت ادراک کے حامل اور فہم و فراست سے معمور تھے۔ محض سات سال کی عمر میں ہی علامہ انور شاہ کشمیری نے فارسی کی بعض ابتدائی کتابیں بھی پڑھ لی تھیں۔ جس عمر میں عموما بچے طفلانہ کھیل کود اور لہو ولعب میں وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں علامہ انور شاہ کشمیری کی ذہنی ساخت اللہ نے ایسی بنائی تھی کہ اس عمر میں  کتابوں سے حد درجہ عشق ہوگیا تھا۔ آپ نے فارسی کی مروجہ کتابیں اپنے والد محترم سے پڑھیں اور اس حد تک اس میں کمال پیدا کیا کہ آپ بے تکلف فارسی کے اشعار کہا کرتے تھے۔ آپ کی زبان دانی کی شہادت  کےلئے فارسی کے اشعار  کافی ہے۔

عربی علوم کی ابتدا

علامہ انور شاہ کشمیری نے والد محترم سے فارسی کی تکمیل کے بعد مولانا غلام محمد رسونی پورہ سے عربی علوم کی ابتدا کی۔ محض دو سال کی قلیل مدت میں آپ نے علم صرف و نحو کے علاوہ اصول فقہ کی کتابوں کو بھی پڑھ لیا تھا۔ آپ کے والد ماجد فرماتے ہیں کہ جب میں اپنے بیٹے انور کو مختصر القدوری پڑھارہا تھا تو وہ مجھ سے ایسے ایسے پیچیدہ سوالات کرتا تھاجو عموما اس عمر کے طلباء نہیں کرتے ہیں۔ اور ان مشکل ترین سوالات کے جوابات فقہ حنفی کی اہم اور بڑی کتابوں میں دستیاب ہوپاتے تھے۔اس کم عمری میں اس درجہ ذہانت اور کتابوں کی ایسی فہم روشن مستقبل کی غماض تھی۔ علم کے ایک نئے باب کی آمد کا پیش خیمہ تھا۔ علمی تشنگی اور کتابوں کی محبت نے آپ کو وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ مشفق والدین نے کوشش کی لیکن آپ "ہزارے” کے لئے روانہ ہوگئے۔ اس زمانہ میں "ہزارے” علم و فن کا گہوارہ تھا۔ اصحاب علم و فضل کا ہجوم اس شہر کی فضا کو علم سے منور کئے ہوئے تھا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے یہاں کے نامور اور راسخ العلوم اشخاص سے علم حاصل کیا۔ تین سال کی طویل مدت تک آپ یہاں رہ کر علمی تشنگی بجھانے میں مصروف رہے لیکن یہ آپ کی آخری منزل نہیں تھی۔ ہزارے میں رہتے ہوئے آپ نے دیوبند اور یہاں کے اکابرین کے متعلق سنا۔ علماء دیوبند سے غائبانہ تعارف نے دل کو اس بات پر ابھارا کہ ان حضرات سے کسب فیض کیا جائے۔ ان کے علوم و معارف سے روشناس ہوا جائے۔ ان کے تبحر علمی سے کچھ موتیوں کو سمیٹا جائے اور علمی میدان میں عروج حاصل کیا جائے۔ اس طرح کے خواب سجائے  کسی راہبر و راہنما کے بغیر کے آپ تقریبا 1308 ہجری کو دیوبند پہنچ گئے۔ سال کا درمیانی وقفہ تھا، داخلہ ممکن نہیں تھا اور دیوبند میں کوئی شناسا بھی نہیں تھا جو راہنمائی کرتا۔ اول وقت میں آپ دارالعلوم کے قریب "قاضی مسجد” میں قیام فرما ہوئے۔ مسلسل کئی روز تک فاقہ رہا لیکن کسی سے اپنی پریشانی کا ذکر نہیں کیا اور خدا سے لو لگائے بیٹھے رہے۔ آپ اس فراق میں تھے کہ دارالعلوم میں استفادہ کی کوئی سبیل پیدا ہوجائے اور اس کے لئے مستقل بارگاہ ایزدی میں التجا و مناجات کرتے رہے۔ ان دنوں "قاضی مسجد” کے متولی قاضی احمد حسین صاحب تھے۔ انہوں نے اس معصوم طالب علم کی شرافت و نجابت کو بھانپ لیا۔ انہوں نے علامہ انور شاہ کشمیری سے سوال کیا کہ تم دیوبند کس غرض سے آئے ہو؟ علامہ انور شاہ کشمیری نے اپنا مدعا بیان کیا اور اپنے حصول علم کے شوق کو ان کے سامنے بیان کیا۔ قاضی احمد حسین صاحب آپ کو شیخ الہندمولانا محمود حسن دیوبندی کی خدمت میں لے گئے۔ شیخ الہندؒ نے حصول علم کی اجازت دے دی لیکن مدرسہ میں گنجائش نہ ہونے کے سبب قیام و طعام کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہوسکی۔

ان دنوں دارالعلوم میں باضابطہ مطبخ قائم نہیں ہوا تھا اور نہ ہی عمارت وغیرہ میں اتنی گنجائش تھی کہ مزید طلباء کو داخل کیا جاتا۔ چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری پٹھانپورہ کی ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینے لگے۔ مسجد کے دیگر کام کاج بھی آپ انجام دیتے تھے۔ اسی مسجد میں رہتے ہوئے آپ کی ملاقات مولانا مشیت اللہ بجنوری سے ہوئی، آپ کا یہ تعلق ایسا قائم ہوا کہ پھر زندگی بھر یہ رابطہ برقرار رہا۔ ہم درس ہونے کے باوجود مولانا مشیت اللہ صاحب  علامہ انور شاہ کشمیری کے تبحر علمی کے قائل اور گرویدہ تھے۔ مولانا مشیت اللہ صاحب نے اپنے رفیق درس سے بھر پور علمی استفادہ کیا اور آپ سے اس درجہ لگاؤ رکھتے تھے کہ بعد کے زمانے میں بھی یہ تعلق قائم و دائم رہا تھا۔

دارالعلوم دیوبند سے فراغت

تقریبا 1211/12 ہجری میں علامہ انور شاہ کشمیری نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے بخاری شریف، ترمذی شریف اور بعض دیگر کتابیں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اور مولانا خلیل احمد سہارنپوری سے پڑھیں جبکہ علم ہیئت مولانا عبد الجمیل افغانی سے حاصل کیا تھا۔ دارالعلوم سے فراغت کے بعد آپ گنگوہ تشریف لے گئے۔ان دنوں گنگوہ میں قطب عالم مولانا رشید احمدگنگوہی ؒ اپنے روحانی و علمی فیض سے طالبان علوم نبویہ کو سیرابی فراہم کررہے تھے۔  حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی دارالعلوم کے سرپرست بھی تھے اور آپ کی شخصیت علماء دیوبند میں سب کے نزدیک مسلم اور مستند تھی۔ علم حدیث، علم تفسیر، علم فقہ، تصوف و سلوک، علم طب کے علاوہ دیگر علوم میں بھی آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مولانا رشید احمد گنگوہی کی درس گاہ کا رخ کیا اور یہاں مکمل ایک سال رہ کر صحاح ستہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے پڑھی۔ ظاہری علوم کے علاوہ باطنی علوم کے لئے بھی علامہ انور شاہ کشمیری نے مولانا رشید احمد گنگوہی کے دست مبارک کو منتخب فرمایا اور ان کے بتائے ہوئے اوراد و وظائف کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ اس طرح علامہ انور شاہ کشمیری نے امام محمد قاسم نانوتوی کے رفیق مولانا رشید احمد گنگوہی اور علوم نانوتوی کے امین شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی دونوں سے بھر پور علمی استفادہ کیا تھا۔ اتباع سنت کا کمال درجہ مولانا رشید احمد گنگوہی کی نگاہ ناز کا اثر تھا تو علوم نبوی میں گیرائی و گہرائی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کی توجہ خاص کا نتیجہ تھا۔

مدرسہ امینیہ دہلی

علامہ انور شاہ کشمیری کے علمی تفوق کا اعتراف ان کے زمانہ طالب علمی میں ہی ہوگیا تھا۔ عوام و خواص میں آپ کی کتب بینی اور کتب فہمی کے چرچے زبان زد عام تھے۔ فراغت کے معًا بعد مولانا امین الدین صاحب دہلوی علامہ انور شاہ کشمیری کو لے کر دہلی روانہ ہوگئے۔ یہاں مولانا امین الدین صاحب اور علامہ انور شاہ کشمیری نے باہم چند مخیر حضرات کے تعاون سے 1315 ہجری کو سنہری مسجد میں مدرسہ امینیہ کی بنیاد ڈالی، جس کے پہلے مہتمم مولانا امین الدین صاحب دہلوی قرار پائے اور صدر مدرس کے لئے نئے فارغ شدہ علامہ انور شاہ کشمیری کا انتخاب عمل میں آیا۔ یہ مدرسہ کے ابتدائی ایام تھے۔ مدرس کے نام پر صرف یہ دو حضرات ہی تھے۔ لیکن اللہ کے ان مخلص بندوں نے بے سروسامانی کے عالم میں علوم دینیہ کی محبت میں وہ خدمات انجام دی ہیں جس سے آج بھی اہل دہلی مستفید ہورہے ہیں۔بعد کے زمانے میں جب دہلی میں مدرسہ امینیہ کا چرچا ہوا اور شدہ شدہ یہ مدرسہ ہندوستان کی بہترین درس گاہوں میں شمار کیا جانے لگا تو علوم نبویہ کے متلاشی اس مدرسہ کی جانب کوچ کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پودا ایک تناآور درخت میں تبدیل ہوگیا اور جس کی بنیاد دو اساتذہ کے ذریعہ رکھی گئی تھی وہاں طلباء کے لئے مزید اساتذہ کی تقرری ناگزیر ہوگئی تھی۔

سفر کشمیر اور مدرسہ فیض عام کا قیام

1319 ہجری میں والدہ محترمہ کی جدائی کی وجہ سے سفر کشمیر کے لئے عازم ہوئے۔ وہاں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ بدعت و خرافات نے یہاں کے ماحول کو مکمل طور پر پراگندہ کردیا ہے۔ دین حنیف کے نام پر دین کے لٹیرے ہر سمت اپنی جھوٹی خانقاہ لگائے بیٹھے ہیں۔ دین کے نام پر دین کے قزاق بنے بیٹھے ہیں جو عارضی فائدے کے پیش نظر عوام الناس کو ظلمت و تاریکی اور بدعت کے غار عمیق میں دھکیل رہے ہیں۔ والدہ محترمہ کی رحلت اور آبائی وطن کی اس دینی حالت نے علامہ انور شاہ کشمیری کے دل کو جھنجوڑ دیا۔ علم کا چراغ جو دور دراز کے علاقوں میں اپنی لو سے لو جلانے میں مصروف تھا خود اس کا اپنا علاقہ تاریکی میں ڈوبتا جارہا تھا۔ اسی اثنا میں چند مخیر حضرات کی فرمائش اور ان کے تعاون سے علامہ انور شاہ کشمیری نے مدرسہ فیض عام کی بنیاد رکھی۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے اس مدرسہ کے ذریعہ جہاں طالبان علوم نبویہ کو قرآن و حدیث کے علمی زیور سے آراستہ کیا وہیں عوام الناس کے درمیان جاکر ان کے عقائد کی درستگی اور انہیں دین کے لٹیروں سے بچانے کا بھی فریضہ انجام دیا۔ چند سالوں میں اس مدرسہ کا خاطر خواہ فائدہ نظر آنے لگا اور لوگوں میں دین اسلام کے تئیں حقیقی طلب اور بدعات و خرافات سے دوری بنانے کا ذوق و شوق پیدا ہوگیا۔ چند سالوں بعد جب حالات میں تبدیلی آئی اور علامہ انور شاہ کشمیری کو محسوس ہوا کہ اب کچھ دنوں کے لئے باہر سفر کیا جاسکتا ہے تو آپ سفر حج کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔ اس وقت تک علامہ انور شاہ کشمیری کو علمی مصروفیت اور حالات نے اس بات کی اجازت نہیں دی تھی کہ حج کے فریضہ کو ادا کرسکیں۔

علامہ انور شاہ کشمیری کا سفر حج

1323 ہجری کو علامہ انور شاہ کشمیری نے مدرسہ فیض عام کو چند مخیر اور دیندار حضرات کی سرپرستی میں دے کر سفر حج کے لئے روانہ ہوگئے۔ حرمین شریفین کے سفر میں ارکان حج اور زیارت مدینہ سے فراغت کے بعد یہاں کے علماء و مشائخ سے کسب فیض کیا۔ شیخ حسن طرابلسی سے ملاقات ہوئی اور ان سے علم حدیث میں اجازت حاصل کی ہے۔ شیخ حسن طرابلسی نے علامہ انور شاہ کشمیری کے علمی تفوق کا برملا اعتراف کیا ہے۔ اور اپنے اجازت نامہ میں علامہ انور شاہ کشمیری کے وسعت علم کو اجاگر کیا ہے۔ ان کے علاوہ مکہ مدینہ میں قائم کتب خانوں سے علامہ انور شاہ کشمیری نے بھر پور استفادہ کیا۔ وہاں رکھے ہوئے مخطوطات اور مطبوعات کا جی بھر کر مطالعہ کیا۔ آپ سرعت مطالعہ میں مشہور تھے۔ عموما کتابوں کو بالاستیعاب دیکھا کرتے تھے۔ اللہ نے بلا کا حافظہ نصیب فرمایا تھا، عموما ایک بار پڑھنے کے بعد کتاب کی وہ باتیں کے آپ کے نگار خانہ ذہن میں محفوظ ہوجایا کرتی تھی، جس کا بعد کی زندگی میں بارہا مشاہدہ ہوا ہے اور لوگوں نے آپ کے اس بے مثال حافظہ کو ہمیشہ کے لئے تاریخ میں محفوظ کیا ہے۔

سفر حج سے واپسی کے بعد علامہ انور شاہ کشمیری دوبارہ مکمل تندہی کے ساتھ مدرسہ فیض عام کی اشاعت اور دینی علوم کی ترویج میں مصروف ہوگئے۔ آپ کی موجودگی نے یہاں کے ماحول پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ لوگوں میں حصول علم کا شوق پروان چڑھنے لگا تھا اور اتباع سنت کی عام ہوا بہنے لگی تھی۔ جہاں کبھی بدعات و خرافات کا مسکن تھا اب وہاں دین حنیف کے سچے متوالے دین اسلام کی اشاعت و ترویج میں ہمہ دم مصروف تھے۔ لیکن قدرت نے علامہ انور شاہ کشمیری کے لئے کچھ اور ہی انتظامات کر رکھے تھے۔ 1326 ہجری میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ علامہ انور شاہ کشمیری نے وطن چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ اگرچہ علامہ انور شاہ کشمیری کا یہ فیصلہ اعزا و اقارب کے لئے تکلیف دہ تھا لیکن آپ کے عزم کو دیکھتے ہوئے کوئی راہ میں رکاوٹ نہ بنا۔ مدینہ طیبہ میں رہائش آپ کے مکنون خاطر تھی اور ہجرت کی اصل وجہ بھی یہی تھی۔ یہ شوق دن بدن بڑھتا چلاگیا اور اسی شوق نے آپ کو تجرد کی زندگی پر آمادہ کرلیا تھا۔

دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات  

علامہ انور شاہ کشمیری نے ہجرت کے ارادہ سے کشمیر کو خیر باد کہہ دیا۔ اس وقت آپ کے دل میں اپنے استاذ محترم شیخ الہند ؒ سے ملاقات کا جذبہ پیدا ہوا۔ اسی قلبی تسکین کی خاطر علامہ انور شاہ کشمیری دیوبند پہنچے اور اپنے مشفق اساتذہ کرام اور حضرت شیخ الہند سے ملاقات کی۔ شیخ الہندؒ کو اپنے ارادہ سے مطلع کیا اور اجازت چاہی۔ شیخ الہند اپنے اس عزیز ، محنتی، صاحب علم، باکمال اور علوم و معارف کے خزینہ سے واقف تھے۔ آپ نے علامہ انور شاہ کشمیری کو دیوبند میں قیام کرنے کا حکم دیا اور اس سلسلہ میں دارالعلوم کی تدریسی خدمات کی پیشکش کی۔ استاذ کے حکم کی عدولی علامہ انور شاہ کشمیری سے مستبعد تھی، فورا تیار ہوگئے۔ شیخ الہندؒ اس وقت دارالعلوم کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین تھے آپ نے علامہ انور شاہ کشمیری کو اول وہلہ میں ہی مسلم شریف، نسائی شریف اور ابن ماجہ کے اسباق حوالہ کردیئے۔  علامہ انور شاہ کشمیری منجھے ہوئے مدرس تھے، اس سے قبل دو اداروں میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دی تھیں اور دونوں ہی ادارے آپ کی جلالت علمی اور انداز درس و تدریس کی بنا پر کم وقت میں شہرہ آفاق حیثیت حاصل کرچکے تھے۔  علامہ انور شاہ کشمیری نے مکمل تندہی، جفا کشی اور پابندی سے طلبہ کرام کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا، آپ کی زندگی کا حاصل اور مصروفیت کتاب، طلبہ اور مطالعہ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ہمہ وقت کتابوں کی ورق گردانی میں مصروف رہتے، اور دنیاوی مشغولیات سے خود کو ہمیشہ دور رکھا کرتے تھے۔  

کتاب سے عشق و محبت کی داستانیں بہت ہیں، کتاب کے عشاق اور مطالعہ کے خوگر افراد نے اپنی زندگی کو برائے کتاب وقف کردیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے نزدیک کتاب سے زیادہ محبوب کوئی دوسری شئی نہیں تھی۔ علامہ انور شاہ کشمیری کا شمار ان عاشق زار میں ہوتا ہے جو کتاب حاصل کرنے کے بعد مکمل کئے بغیر بے چین و بے قرار رہا کرتے تھے۔ کتابوں کے ادب و احترام کا یہ عالم تھا کہ کبھی کتاب کو اپنے تابع نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ کتاب کے تابع ہوکر بیٹھا کرتے تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں جب پہلی مرتبہ "فتح الباری” شرح بخاری مرتبہ ابن حجر عسقلانی منگائی گئی تو شاہ صاحب فرط محبت میں تمام طلبہ کرام کو لے کر دیوبند اسٹیشن پہنچ گئے۔ تیرہ جلدوں پر مشتمل اس ضخیم کتاب کو اپنے سر پر اٹھا کر مدرسہ پہنچے، اور محض چودہ دنوں کی قلیل مدت میں تمام تر درس و تدریس کی مشغولیت کے باوجود فتح الباری کی مکمل تیرہ جلدوں کا مطالعہ کرلیا تھا۔

دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ آپ نے مختلف میدانوں میں حالات و واقعات کے اعتبار سے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ جب آزادی ہند کی خاطر شیخ الہند کو کچھ دنوں کےلئے دارالعلوم سے رخصت ہونا ہوا تو ایسے وقت میں شیخ الحدیث  کے لئے اکابرین دارالعلوم کی متلاشی نگاہیں علامہ انور شاہ کشمیری پر آکر ٹھہر گئی اور آپ کو دارالعلوم کی مسند صدارت پر بٹھا یا گیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے طرز تعلیم میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی اور ایسے انوکھے اور اچھوتے انداز کو اختیار کیا جس سے دارالعلوم کی پرانی روایتیں یکسر تبدیل ہوگئیں۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی نابغیت اور جامعیت کا شہرہ دور دراز کے علاقوں میں پھیل گیا۔ علم حدیث اور دیگر علوم میں آپ کی جامعیت و معنویت نے ہر کسی کو آپ کے علمی تفوق کا قائل کردیا ۔ علامہ انور شاہ کشمیری سے علمی استفادہ کرنے والوں کی طویل فہرست ہے اور آپ کے تلامذہ نے آپ کی جامعیت پر جو کچھ لکھا ہے وہ آپ کی خداداد عالمانہ و عارفانہ شان کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری کے مایہ ناز شاگرد سلطان القلم مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں: "واقعہ یہ ہے کہ باتوں باتوں میں صرف حدیث ہی نہیں بلکہ دوسرے علوم کے ایسے اہم اہم کلیات ان کے درس میں ہاتھ آجاتے تھے کہ اپنے ذاتی مطالعہ سے شاید عمر تک رسائی ہم جیسے نارساؤں کی آسان نہ تھی”۔آگے لکھتے ہیں: "جیسے حدیث کے متعلق شاہ صاحب کے درس میں گُر کی باتیں معلوم ہوتی رہتی تھیں، ایسی باتیں جن سے تاثرات میں غیر معمولی انقلاب پیدا ہوجاتا تھا، یہی حال دوسرے علوم و فنون کے متعلق تھا درس تو ہوتا تھا حدیث کا لیکن شاہ صاحب کی ہمہ گیر طبیعت نے معلومات کا جو گرانمایہ قیمتی سرمایہ ان کے اندر جمع کردیاتھا، وہ ان کے اندر سے بے ساختہ چھلکتا رہتا تھا”۔ علامہ انور شاہ کشمیری کا درس تو اردو زبان میں ہوتا تھا لیکن آپ عربی زبان کی اصطلاحات اس کثرت سے استعمال کرتے تھے کہ طلباء کے لئے عربی زبان میں تقریر کو نوٹ کرنا آسان ہوتا تھا بالمقابل اردو زبان کے۔ بعد کے ادوار میں جن لوگوں نے بھی آپ کے علمی ذخیرہ کو جمع کیا ہے تقریبا سبھوں نے عربی زبان کا سہارا لیا ہے۔

نکاح مسنون

علامہ انور شاہ کشمیری نے کتابوں کے مطالعہ اور درس و تدریس کی مشغولیت کی بنا پر تجرد کی زندگی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ آپ کے اس فیصلہ سے اہل دارالعلوم کو تشویش تھی مبادا آپ ہجرت نہ کرجائیں۔ اس سلسلہ میں بعض حضرات نے مشورہ کرکے جن میں پیش پیش مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ تھے علامہ انور شاہ کشمیری کے اساتذہ کے سامنے ان کے شادی کی تجویز رکھی۔ شیخ الہند ؒ نے آپ کو شادی کا مشورہ دیا ، خواہی نہ خواہی علامہ انور شاہ کشمیری ازدواجی زندگی کے لئے تیار ہوگئے۔  علامہ انور شاہ کشمیری ہمیشہ کتابوں میں مستغرق رہا کرتے تھے۔ زندگی کے نشیب و فراز سے بے پرواہ علمی خزینوں کی یافت میں مگن رہا کرتے تھے۔ شادی کے بعد بھی یہ سلسلہ برقرار رہا۔ مولانا انظر شاہ کشمیری ؒ فرماتے ہیں: "گھر پر آمد و رفت کا عالم یہ تھا کہ کبھی ہفتہ میں کبھی عشرہ میں اور کبھی پورا مہینہ ہی گزر جاتا، ابتدا میں ایک بار محلہ کی فرتوت ضعیفہ نے ہمدرد و غمگسار بن کر کہا کہ "حضرت شاہ صاحب کی بے التفاتی کو ختم کرنے کے لئے کسی موثر تعویذ کی ضرورت ہے، جس کا معاوضہ اس زمانہ میں دس روپے طلب کئے گئے، یہ (والدہ) اپنی غربت کی وجہ سے اس حقیر رقم کا بھی بندوبست نہیں کرسکیں، لیکن عورتوں کی عام نفسیات یعنی شوہر کو اپنی جانب مائل و متوجہ کرنے کے جذبہ میں اور تو کچھ بن نہ پڑا اپنا چاندی کا ایک زیور دے دیا، تعویذ آگیا، بازو پر باندھ لیا گیا، چند ہی گھنٹوں کے بعد خلاف توقع و معمول  حضرت شاہ صاحب تشریف لے آئے۔ فرماتی تھیں کہ اس آمد کو تعویذ کا اثر سمجھتے ہوئے میں خوشی سے جھوم رہی تھی کہ تدبیر کارگر ہوئی، شاہ صاحب تشریف فرماہوئے اور بغیر کسی تمہید کے فرمایا کہ ارے ہم پڑھنے پڑھانے میں مشغول رہتے ہیں مطالعہ کی کثرت کی بنا پر مفقود الفرصت ہیں تعویذ وغیرہ سے کوئی فائدہ نہیں”۔

بیعت و خلافت

بیعت و خلافت اور تصوف و سلوک قلوب انسانی کے تزکیہ و تطہیر کے لئے سب سے مفید اور کارگر عمل ہے۔ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ فرماتے ہیں: "جس کا کوئی راہبر نہیں ہوتا، شیطان اس کا راہبر بن جاتا ہے”۔ ہمارے اسلاف و اکابرین اور بزرگان دین نے تصوف و سلوک کو بڑی اہمیت دی ہے۔ خانقاہی نظام کے توسط سے ہر دور اور ہر قرن میں کثیر خلق خدا نے دینی و روحانی معاملات میں فائدہ اٹھایا ہے۔ اسلام کی ترویج و اشاعت میں  بوریہ نشیں صوفیاء کرام نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بر صغیر میں خواجہ معین الدین چشتی اور ان کے خلفاء خواجہ قطب الدین بختیارکاکی، خواجہ فرید الدین گنج شکر، خواجہ نظام الدین اولیاء، علاؤ الدین علی احمدصابر کلیری اور دیگر سلاسل سے وابستہ اہل قلوب حضرات نے اپنے اخلاق کریمانہ اور تعلیمات نبوی کی روشنی میں دین اسلام کی بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔

مولانا انظر شاہ کشمیری "نقش دوام” میں رقم طراز ہیں: "دارالعلوم دیوبند میں ایک وقت ایسا گزرا کہ جب تک یہاں کا فاضل کسی خانقاہ سے وابستگی پیدا کرکے معمورہ باطن کی تطہیر نہ کراتا اسے سند فراغ نہ دیجاتی۔ دارالعلوم کا یہ وہی میمونی عہد ہے جس میں اس کے مدرسین و کارکن بلکہ جرس نواز تک احسانی کیفیات کے رازدار تھے”۔ علامہ انور شاہ کشمیری جو شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے بعد اس قافلہ کے سالار منتخب ہوئے ان کی بابت کیا کہنا۔ علامہ انور شاہ کشمیری کے والد محترم شاہ معظم حسین "سلسلہ سہروردیہ” کے مجاز تھے۔ شاہ معظم حسین نے اپنے لائق و فائق صاحبزادہ کو "سلسلہ سہروردیہ” میں مجاز قرار دیا تھا۔ گنگوہ میں جب آپ مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں اجازت حدیث کے لئے قیام پذیر تھے، تو واپسی کے وقت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ نے بھی اپنی جانب سے آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا تھا۔  

شعر گوئی 

علامہ انور شاہ کشمیری کا عہد وہ تھا جس میں شعر و شاعری اپنے شباب پر تھی۔ اردو، فارسی کے علاوہ عربی زبان میں بھی شعر و شاعری کا دور دورہ تھا۔ اس فن سے واقف افراد اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لئے شعری نشست منعقد کرتے اور اپنے کلام کو رسالوں اور دیگر ذرائع سے دوسروں تک پہنچانے کی سعی میں لگے رہتے تھے۔ شاہ صاحب اس باب میں الگ ہی شخصیت کے مالک تھے۔ مولانا انظر شاہ کشمیری نقش دوام میں رقم طراز ہیں: "مرحوم نے بھی ہمیشہ فارسی میں زائد اور عربی و اردو میں بھی کلام موزوں کیا ہے۔ خود فرماتے ہیں کہ عہد طفلی میں زود گوئی اور کثیر گوئی کا یہ عالم تھا کہ وہ شعر کہتے اور ان کے بڑے بھائی یسین شاہ قلم بند کرتے تو غریب کاتب لکھنے سے عاجز ہوتا۔ عربی میں کہنا شروع کیا تو عرب جاہلیت کے کلام کے ہم وزن و ہم پایہ شاعری یادگار چھوڑی۔ لیکن جو کچھ کہا اس میں گل و بلبل،جام و مینا، حسن و عشق کی کشمکشوں کے بجائے یا ثنائے خدا ہے یا ثنائے محمد ﷺہے، یا پھر علمی اہم حقائق کو شعر کی زبان میں پیش فرمایا ہے۔مسئلہ تقدیر و تدبیر، تکلیف اعمال، جزا و سزا، برزخ، تشکل اعمال ایسے ہی اہم مضامین شعر میں قلم بند کئے گئے ہیں بلکہ حدوث عالَم پر تو مستقل ایک رسالہ ہی شعر میں کہہ ڈالا، جسے مصر کے مشہور فلسفی عالم شیخ مصطفی صبری نے دیکھ کر کہا تھا: "میں اس رسالہ کو صدر شیرازی کے اسفار اربعہ پر ترجیح دیتا ہوں اور مجھے اس کا شبہ تک بھی نہ تھا کہ کسی ہندی عالم کی نظر ان خشک فلسفیانہ مضامین پر اس قدر عمیق ہوگی”۔ مونگیر (بہار) میں حضرت مولانا محمد علی مونگیری صاحب ؒ کی جنہیں تردید قادیانیت اور اس فتنہ عمیا کی سرکوبی کا ایک بے قرار جذبہ تھا، کوششوں سے قادیانیوں سے مناظرہ کے لئے ایک تاریخ تجویز ہوئی، اس اہم اور تاریخی مناظرہ میں شرکت کے لئے اکابرین دارالعلوم کا ایک وفد روانہ ہوا جس میں شاہ صاحب نے بھی شرکت کی۔ قادیانی مبلغین نے یہ سمجھ کر کہ علماء عربی تکلم سے عاجز ہوتے ہیں شرائط مناظرہ کے طور پر عربی میں مناظرہ کی بات شروع کی اس پر مرحوم (شاہ صاحب) نے فرقہ ضالہ کے ذمہ داروں تک پیغام پہنچایا کہ مناظرہ نہ صرف عربی میں بلکہ عربی اشعار میں جو ارتجالا کہے جائیں گے ہوگا۔ اس کڑی شرط پر قادیانی گروہ کے لئے راہ فرار کے بجز اور کوئی چارہ کار نہ تھا”۔

علامہ انور شاہ کشمیری نے تقریبا پندرہ ہزار سے زائد اشعار کہے ہیں، لیکن افسوس کہ بعض کلام محفوظ نہیں رہ سکے ہیں۔ آپ نے کئی کتابیں اور کئی ایک مضامین مکمل اشعار میں مرتب فرمائے ہیں۔ مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں کہ شاہ صاحب کی شعر گوئی کا یہ عالم تھا کہ حدیث کے ایک لفظ کی لغوی تحقیق کے ضمن میں کئی کئی اشعار پڑھ دیا کرتے تھے۔  

جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں

مشیت ایزدی کے سامنے انسانی تدابیر تار عنکبوت کی مانند پھسپھسی ثابت ہوتی ہیں۔ دارالعلوم دیوبند میں علامہ انور شاہ کشمیری سے کسب فیض کرنے والوں میں طلباء ہی نہیں بلکہ دور دراز سے علماء اپنے علمی مشکلات کے لئے پہنچا کرتے تھے۔ بعض اہل علم دیوبند کا سفر رمضان المبارک کی چھٹیوں میں اسی مقصد سے کیا کرتے تھے۔ لیکن وقت اور حالات کی گردش نے علامہ انور شاہ کشمیری کو دارالعلوم دیوبند سے استعفی دینے پر مجبور کردیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری کو مختلف اداروں کی جانب سے خطیر رقم کی پیشکش کی گئی لیکن علم و عمل کا یہ آفتاب و ماہتاب سرزمین گجرات کو اپنی جلوہ فگانی سے منور کرگیا۔ اہل گجرات کی خوش بختی کہ جس ماہ مبین کے حصول کے لئے نامور اشخاص اور ادارے سعی بسیار کے باوجود نامراد رہ گئے وہ گجرات کی ایک غیر معروف بستی کو علم کا مرکز بناگیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے گجرات میں علوم نبویہ کے علاوہ سنت نبویہ کی ترویج و اشاعت کی جانب بھر پور توجہ فرمائی۔ اہل گجرات کے رگ و ریشہ میں پیوست بدعات و خرافات کا خاتمہ کیا اور عوام الناس کو سنت کی جانب مائل کرنے کا اہم فریضہ بھی انجام دیا تھا۔ 1346 ہجری سے 1351 ہجری تک ڈابھیل کی درس گاہ علامہ انور شاہ کشمیری کے علمی فیوض و برکات سے معطر اور مشکبار رہی تھی۔ آپ کی موجودگی نے ایک  غیر معروف ادارہ کو ملک کی مشہور ترین درسگاہوں کی صف میں لا کھڑا کردیا تھا۔ ڈابھیل میں قیام کے دوران ایک اہم کام یہ ہوا کہ آپ کے چند نامور شاگردوں نے آپ کے علوم و معارف کو جمع کرنا شروع کیا اور انہیں علامہ انور شاہ کشمیری کی نظر ثانی کے بعد منظر عام پر لائے۔ علامہ کے علوم و معارف کے جو حصے ہمیں میسر آئے ہیں وہ انہیں مخلص تلامذہ کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔

علامہ انور شاہ کشمیری اور رد قادیانیت

غلام احمد قادیانی کے گمراہی کی پیشن گوئی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے اسی وقت کردیا تھا، جب انہوں نے قادیانی کی کتاب "براہین احمدی” کو دیکھا تھا۔ فتنہ قادیانیت ایک منظم اور منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھا۔ پہلے عیسائیت کی تبلیغ اور ترویج و اشاعت کے ہتھکنڈے اپنائے گئے، لیکن مولانارحمت اللہ کیرانوی ، مولانا قاسم نانوتوی ، مولانا محمد علی مونگیری جیسے اصحاب فضل و کمال اور دینی غیرت و حمیت کے حامل اشخاص نے اس فتنہ کی سرکوبی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس فتنہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ لیکن قادیانیت اسلام کے نام پر، نبی کے نام پر، قرآن و حدیث اور قبلہ و کعبہ کے نام پر عوام الناس میں بے دینی و گمراہی پھیلانے کا کام انجام دے رہی تھی۔ قادیانیت کے شکار دور دراز علاقوں اور گاؤں دیہات میں بسنے والے غریب مزدور تھے۔ علماء اسلام جب اس فتنہ کی زہر انگیزی اور خونچکاں مضر اثرات سے متعارف ہوئے تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ملک کے مختلف گوشوں میں مختلف افراد نے اس فتنہ کی سرکوبی کو اپنی زندگی کا نصب العین مقرر کیا، اور اسلام کی صداقت و حقانیت سے عوام الناس کو متعارف کرانے کے لئے کوشاں ہوگئے۔ تحفظ ختم نبوت کے قافلہ سالار میں دو نام بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ مولانا محمد علی مونگیری جن کا قول تھا کہ رد قادیانیت پر اس کثرت سے کتابچے لکھیں جائیں کہ جب صبح مسلمان بیدار ہو تو اس کے سرہانے یہ کتاب موجود ہو۔ علامہ انور شاہ کشمیری جنہوں نے فرمایا حالانکہ ہم پر یہ بات کھل گئی کہ گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں۔

علامہ انور شاہ کشمیری نے رد قادیانیت کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔ آپ نے اپنے خاص تلامذہ کی ایک جماعت تیار کی اور ان سے رد قادیانیت پر کتابیں، مضامین، مقالات  وغیرہ مرتب کرائیں اور بذات خود ان تمام تحریروں کو دیکھتے، تصحیحات درج کرتے اور پھر اشاعت کی اجازت مرحمت فرماتے۔ مجلس احرار کے قیام کے بعد، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، ظفر علی خان اور دیگر اراکین احرار کی ہمہ وقت حوصلہ افزائی فرماتے اور بوقت ضرورت ان کے تعاون کی سبیل بھی پیدا کیا کرتے تھے۔ رد قادیانیت کے سلسلہ میں آپ کا مقدمہ بہاولپور تاریخ کا عظیم باب ہے۔ پیرانہ سالی، ضعف و نقاہت اور شدید بیماری کے باوجود آپ اس مقدمہ میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے۔ مقدمہ میں آپ کی گواہی اور جرح نے قادیانیت کے پرخچے اور بخئیے ادھیڑ کر رکھ دیئے تھے۔ قادیانیت کے کفر اور ان کی چالبازیوں کو آپ نے طشت ازبام کردیا تھا۔ ان تمام مصروفیات و مشغولیات کے باوجود آپ نے رد قادیانیت پر پانچ کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔  علامہ انور شاہ کشمیری کی توجہ اور ان کی محنت کے نتیجہ میں شاعر مشرق علامہ اقبال بھی قادیانیت کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ علامہ انور شاہ کشمیری اور علامہ اقبال کے تعلقات پر ہمارا تفصیلی مضمون "علامہ انور شاہ کشمیری اور ڈاکٹر اقبال” ہے۔

علامہ انور شاہ کشمیری کی تصانیف

علامہ انور شاہ کشمیری کی تصانیف دو طرح کی ہیں۔ ایک تو وہ تصانیف ہیں جنہیں آپ نے خود مرتب کیا ہے اور بعض وہ ہیں جنہیں آپ کے تلامذہ نے آپ کی تقاریر اور دروس سے اخذ کرکے مرتب کیا ہےاور علامہ انور شاہ کشمیری نے خود ان کتابوں کو دیکھا ہے اور ان پر نظر ثانی کے بعد اشاعت کی اجازت فرمائی ہے، بعض کتابیں وہ بھی ہیں جنہیں علامہ انور شاہ کشمیری کی ایماء پر آپ کے شاگردوں نے مرتب کیا ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی تصانیف اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں ہے، جن میں بعض منظوم ہیں تو بعض منثور ہیں۔  آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کیا ہے اور ایسے نادر ونایاب موتیوں کو پرویا ہے جو بمشکل کہیں نظر آتی ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری صرف ایک محدث ہی نہیں بلکہ علم کا وہ ناپید کنارہ تھے، جس میں ہر فن اپنے اکمال کے ساتھ موجود تھا۔ دارالعلوم دیوبند میں رہتے ہوئے آپ کا ایک تجدیدی کارنامہ انداز درس کی تبدیلی تھی۔ آپ نے اپنے سابقین کی روایت کے برخلاف ایسے طرز تدریس کو ایجاد کیا جس نے سابق کی تمام روایتوں کو یکسر تبدیل کردیا تھا۔ اسی طرح علامہ انور شاہ کشمیری نے تصانیف کے میدان میں ایسی بیش بہا قیمتی تصانیف چھوڑی ہیں جو علماء دیوبند کی جانب سے امت مسلمہ کے لئے عظیم تحفہ ہے۔  حلقہ دیوبند میں آپ سے زیادہ علم حدیث میں دسترس رکھنے والا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے بیشتر بڑے اور اہم کام علم حدیث کے باب میں پائے جاتے ہیں۔ آپ کے درس بخاری کی ترتیب بنام فیض الباری، انعام الباری  تشنگان علوم نبویہ کے لئے سر چشمہ کی حیثیت رکھتی ہے، اسی طرح آپ کے درس ترمذی پر آپ کے کئی نامور شاگردوں نے کام کیا ہے۔ العرف الشذی، معارف السنن، العرف الذکی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی تصانیف کے تعارف و تبصرہ پر مکمل ایک مضمون جلد قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔

سانحہ وفات

علامہ انور شاہ کشمیری کی طبیعت میں اضمحلال کی کیفیت شروع ہونے لگی تھی۔ ڈابھیل میں قیام کے دوران وہاں کی آب و ہوا کا بھی اس میں بڑا دخل تھا۔ 2 صفر 1352 ہجری کو عصر اور مغرب کے درمیان طبیعت میں زیادہ گراوٹ پیدا ہوئی ۔ طلبہ دارالعلوم اور اساتذہ دارالعلوم مستقل مزاج پرسی کے لئے دولت کدہ پر حاضر ہورہے تھے۔ حکماء اور ڈاکٹر کی تدابیر بھی طبیعت کی بحالی میں معاون ثابت نہیں ہورہی تھی۔ بالآخر 3 صفر شب بارہ بجے کے بعد علم و عمل کا آفتاب ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔آپ کی وفات نے علم حدیث کے ایک روشن باب  کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا تھا۔دیوبند میں عید گاہ کے قریب آپ کی آخری آرام گاہ ہے۔

 

Related Posts

4 thoughts on “علامہ انور شاہ کشمیری: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے