"ابن خلدون کا بیان ہے کہ خداوند تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی ترکیبی ساخت ایسی بنائی کہ وہ بغیر غذا کے زندہ نہیں رہ سکتا لیکن انسان کے کسی فرد میں یہ قدرت نہیں ہے کہ وہ آسان سے آسان غذا مثلا روٹی کو بھی تنہا حاصل کرسکے۔ تم یہ فرض کرسکتے ہو کہ وہ خام گیہوں کو بغیر پیِسے اور بغیر پکائے کھا سکتا ہے لیکن وہ دوسرے کی اعانت کے بغیر کاشتکاری کے ضروری آلات کی مدد سے، نہ کھیت کو جوت سکتا ہے،  نہ دانہ بوسکتا ہے اور نہ اس کو کاٹ سکتا ہے۔ انسان تنہا درندہ جانوروں کے حملہ سے اپنی حفاظت نہیں کرسکتا، کیونکہ وہ ہر قدرتی ہتھیار سے معرا ہے، اس لئے اسے اپنے دوسرے ساتھیوں کی مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان مصنوعی ہتھیاروں کو حاصل کرسکے، جن کے ذریعہ سے وہ مدافعت کے ان وسائل کی کمی کو پورا کرسکے جو اس کے پاس موجود نہیں ہیں اور بہت سے معرکوں میں جن  میں شریک ہونا اس کے لئے ضروری ہے، ان کے سامنے اعانت کے لئے فریاد کرنا اس کے لئے لازمی ہے”۔

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ۔۔۔ ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

اس کار گہ عالم کا مکمل نظام اور اس  میں موجود تمام مخلوقات نفعِ انسانی کے لئے ہے۔ لیکن ان سے تمتع اور فائدہ اٹھانے کے لئےمختلف مراحل کو طے کرنا ضروری ہے ۔ اللہ نے بندوں کے رزق کا ذمہ لیا ہےلیکن اس کی حصولیابی کے لئے جدوجہد اور تگ و دو ضروری ہے۔ اس کارخانہ حیات کو پائیداری بخشنے اور اس کے انتظام و انصرام کے لئے مختلف انسانوں کو مختلف امور و فنون کا ماہر بنایا تاکہ ہر کسی سے دوسرے کے ضرورت کی تکمیل ہوسکے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص کو گھر بنانے کے لئے معمار کی ضرورت پڑتی ہے، فرنیچر کے لئے بڑھئی کی ضرورت پیش آتی ہے، پانی کے نظام کی درستگی کے لئے پلمبر درکار ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ایک معمار کو تعلیم کے لئے معلم کی ضرورت پیش آتی ہے ، اشیائے خوردونوش کے لئے کسان اور سبزی فروش اور خوانچہ فروش کی اعانت درکار ہوتی ہے۔ اس دنیا کا نظام ہی ایسا مرتب کیا گیا ہے کہ ہر کوئی اپنی ضرورت کی تکمیل میں دوسرے کا محتاج ہوتا ہے۔ انسان کہلانے کے لائق در حقیقت وہی انسان ہے جو ان اوصافِ حمیدہ سے متصف ہو اور جس کے وجود سے کائنات میں بسنے والے دیگر انسان نفع حاصل کرسکیں۔  ایک دوسرے کے باہمی تعاون کے نتیجہ میں آج کا انسان چاند پر کمندیں پھینک رہا ہے۔ نت نئے ایجادات کے ذریعہ انسانی زندگی کو آسان سے آسان تر بنا رہا ہے ۔ اگر یہ باہمی تعاون میسر نہ ہوتا تو یہ ٹیکنالوجی یہ ترقیات اور بلند و بالا عمارات کہیں موجود نہیں ہوتے۔

Related Posts

0 thoughts on “ابن خلدون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے