آؤ مل کر جشن منائیں

آؤ مل کر جشن منائیں

اسجد عقابی
پندرہ اگست 1947 کو ہندوستان میں برطانوی سامراج سےآزادی کا پرچم لہرایا گیا،یہ آزادی انتہائی تگ و تاز اور صبر آزما جدوجہد کے بعد حاصل کی گئی، مجاہدین آزادی نے  ہنستے کھیلتے موت کو گلے لگاکر، پھانسی کے پھندے کو چوم کر ہمیں یہ آزادی فراہم کی۔ آخر ان مجاہدین نے اتنی قربانیاں کیوں دیں، ان کے خواب کیا تھے، کن حسین سپنوں کو سجائے سرفروشوں نے پھانسی کے پھندوں کو بوسہ دیا تھا، زنداں کی تاریک کوٹھریوں کو آباد کیا تھا اور اپنا سب کچھ قربان کرکے ملک کے حوالہ کردیا تھا، کیا وہ سپنے پورے ہورہے ہیں، کیا وہ ارمان مکمل ہوگئے ہیں۔ 
اگر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اب وہ سب کچھ تبدیل کیا جارہا ہے جن کی حصول یابی کیلئے تقریباً دو صدی تک ملک ہندوستان کے سپوتوں نے قربانیاں دی تھیں۔ وہ دستور اور آئین جسے رنگ برنگی تہذیب کی بقا کیلئے تیار کیا گیا تھا اب آہستہ آہستہ ایسے قوانین کو بدلا جارہا ہے، اور کھلے عام قانون کی روح کو پامال کیا جارہا ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کو ایک بولی بولنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے۔ مختلف النوع تہذیب و ثقافت کے حامل قبائل و افراد کو ایک خود ساختہ تہذیب کو اپنانے کیلئے زور ڈالا جارہا ہے۔ حقوق کی بات کرنے والوں کو پس زنداں کیا جارہا ہے۔ انسانیت کیلئے علم اٹھانے والوں کو ڈرایا جارہاہے۔ آئین و دستور کی بات کرنے والوں کو دن دہاڑے مارا جارہا ہے۔ معصوم اذہان میں زہر گھول کر انہیں حیوانیت کا سبق پڑھایا جارہا ہے۔ نوجوانوں میں نفرت کے بیج بو کر انہیں قانون شکنی کے اصول و ضوابط سکھائے جارہے ہیں۔ راہ چلتے معصوم شہریوں کو زد و کوب کیا جارہا ہے۔  محض شک و شبہ کی بنیاد پر بے گناہ اور معصوم افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ جس دیش میں عورتوں کو دیوی کا درجہ حاصل ہے اسی ملک میں عورتوں کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے۔ منظم طور پر فرقہ وارانہ فسادات بھڑکائے جارہے ہیں۔ بے قصوروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ اس ملک میں وہ سب کچھ کیا جارہا ہے جو جمہوری اقدار کے سراسر خلاف ہے۔ 
گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار اس دیش کو ٹیپو سلطان، نواب سراج الدولہ، بھگت سنگھ، ابوالکلام آزاد، مہاتما گاندھی، اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل جیسے جیالوں نے فرنگی بھیڑیوں سے اسے آزاد کر کے آزاد ملک بنا یا تھا مگر افسوس کہ آج چند جنونی بھیڑئیے جنہوں نے انگریزی فوج کی چاپلوسی کی تھی آج ملک بھر میں اپنے ناجائز منصوبوں کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں۔ عوام الناس کو مذہب کے نام پر بانٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کثرت میں وحدت کے تصور کو پامال کرکے ان قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش اور منصوبہ بندی کی جارہی ہے جن کے زیر سایہ انسان کو انسانیت کے لبادہ سے باہر کرکے انہیں چھوت اچھوت کی لکیروں سے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ انسانی حقوق صرف ان نام نہاد افراد کیلئے وضع کئے جائیں گے جو خود کو اعلیٰ حسب نسب والے تصور کئے بیٹھے ہیں جبکہ پسماندہ طبقات کیلئے ذلت و نکبت کے طوق ماضی کی طرح پھر سے گلے کے ہار بنا دیئے جائیں گے۔ حتی کہ تعلیمی نظام میں ایسی شرائط اور ایسے جزئیات داخل کئے جارہے ہیں جن سے غریبوں اور کمزوروں کے بچوں کیلئے تعلیمی قابلیت خواب بن کر رہ جائے گی۔ 
ہر گزرتے دن کے ساتھ تاریکی کا خوف بڑھتا جارہا ہے۔ امید کی کرنیں معدوم ہورہی ہے، ظلم کے سائے پھیلتے جارہے ہیں، عدالت کا وقار مجروح ہوتا جارہا ہے۔ انصاف کی دیوی دم توڑ رہی ہے۔ نظم و نسق خراب ہورہے ہیں۔ انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں سے لاپرواہی برت رہی ہے۔ قانون کے محافظ قانون شکن بن رہے ہیں۔ عدل و مساوات کی قسم لینے والے ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں غرضیکہ سب کچھ بدل رہا ہے۔ 
اتنا سب کچھ ہورہا ہے لیکن اب بھی اس چمن کو بچانا اور اس کی سیرابی ہمارے لئے ضروری ہے۔ ہمارے آباؤاجداد نے اسے خون جگر سے سینچا ہے، اسے یوں برباد نہیں ہونے دیا جاسکتا ہے۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے 
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے 
لیکن۔۔۔
ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن   اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا
 اس ملک کا دستور اس ملک کے باشندوں کو حق دیتا ہے کہ اپنے مذہب، تہذیب، ثقافت اور قبائلی رسم و رواج کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے۔ 
آئیے یوم آزادی کے اس موقع پر اس بات کا عہد کریں کہ اخوت و بھائی چارگی اور امن و آشتی کے اس گہوارہ کو سدا سلامت رکھیں گے، اور جس ہندوستان کا خواب ہمارے آباؤ اجداد نے دیکھا تھا اسے پورا کریں گے۔ چند زہریلی ہواؤں کے بدمست جھونکوں سے یہ خرمن کبھی متاثر نہیں ہوسکتا ہے۔
وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رگڑنے دے 
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا
ہمارے دیگر مضامین سے استفادہ کیلئے کلک کریں

Related Posts

0 thoughts on “آؤ مل کر جشن منائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے